امریکا اور برطانیہ کی جانب سے کینیا میں بس حملے کی مذمت
23 نومبر 2014صومالیہ کی دہشت گرد تنظیم الشباب کی جانب سے کینیا میں ہفتے کے روز ایک بس کے غیرمسلم مسافروں کو ہلاک کر دیا تھا۔ اس کے ردِ عمل میں امریکی قومی سلامتی کونسل کی ترجمان برناڈیٹ میہین نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے امریکا کینیا کے ساتھ کھڑا ہے۔
برطانیہ نے بھی اس نوعیت کا مذمتی بیان جاری کیا ہے۔ لندن میں اسٹیٹ منسٹر فار فارن اینڈ کامن ویلتھ آفس نے کہا: ’’دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں برطانیہ کینیا کی حکومت کے ساتھ ہے۔‘‘
ان دونوں ملکوں نے دہشت گردی کے اس واقعے کے تناظر میں کینیا کے لیے دہشت گردی کے خلاف مدد میں اضافے کا عندیہ بھی دیا ہے۔
شدت پسندوں نے کینیا میں ایک بس پر حملہ کر کے اس میں سوار 28 غیرمسلموں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ یہ بس کینیا کے دارالحکومت نیروبی کی جانب رواں دواں تھی۔
بتایا گیا ہے کہ بس میں تقریباﹰ ساٹھ مسافر تھے۔ شدت پسندوں نے بس روکنے کے بعد مسلمان اور غیرمسلم مسافروں کو الگ الگ کیا۔ حکام کے مطابق اس کے بعد غیرمسلم مسافروں کو اسی بس پر لے جانے کی کوشش کی گئی لیکن بس خراب ہونے کے بعد انہیں وہیں گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا۔ بعدازاں حملہ آور صومالیہ فرار ہو گئے۔
الشباب نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اسے مساجد پر پولیس کے چھاپوں کا انتقام قرار دیا تھا۔ الشباب کے ایک ترجمان نے اے ایف کو بھیجے گئے ایک بیان میں کہا ہے کہ ہفتے کو علی الصبح ٫مجاہدین نے کامیابی سے یہ کارروائی‘ کی۔
کینیا کی پولیس نے رواں ہفتے ممباسا میں چار مساجد بند کر دی تھیں جنہیں شدت پسندوں کے زیر اثر قرار دیا گیا تھا۔ خیال رہے کہ کینیا کے شہر ممباسا میں مسلمان اکثریت میں ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق الشباب صومالیہ کی حکومتی فوج اور افریقی یونین کی فورسز کے ہاتھوں کئی قصبوں اور بندرگاہوں کا کنٹرول کھو چکی ہے۔ اسے ایک ایسی پیش رفت قرار دیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں شدت پسندوں کی لاکھوں ڈالر کی کمائی کو دھچکا لگا جو انہیں خلیجی ملکوں کو لکڑی کا کوئلہ فروخت کرنے سے ہوتی تھی۔
تاہم اقوام متحدہ کے تفتیش کاروں نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ اس ملیشیا پر فضائی اور ڈروں حملوں کا خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا اور یہ شدت پسند علاقائی سطح پر ایک بڑا خطرہ بنے ہوئے ہیں۔