1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امريکا اور افغانستان کے مابين باہمی سکيورٹی معاہدے پر دستخط

عاصم سليم30 ستمبر 2014

کئی ماہ کی تاخير کے بعد بالآخر افغان اور امريکی حکام نے باہمی سکيورٹی معاہدے پر دستخط کر ديے ہيں، جس کے تحت امريکا کے ليے رواں برس کے بعد بھی افغانستان ميں اپنے چند ہزار فوجی تعينات رکھنا ممکن ہو سکے گا۔

https://p.dw.com/p/1DNiX
تصویر: SHAH MARAI/AFP/Getty Images

افغان دارالحکومت کابل ميں تيس ستمبر کے روز افغانستان کے مشير برائے قومی سلامتی حنيف اٹمار اور امريکی سفير جيمز کنگہم نے باہمی سکيورٹی کے معاہدے پر دستخط کر ديے ہيں۔ اس معاہدے کے تحت رواں برس افغانستان سے غير ملکی افواج کے انخلاء کے بعد بھی امريکا کے چند ہزار فوجی وہاں تعينات رہ سکيں گے، جو بنيادی طور پر افغان سکيورٹی فورسز کی تربيت اور معاونت کا کام سر انجام ديں گے۔

معاہدے پر دستخط ٹيلی وژن پر براہ راست نشر کردہ ايک تقريب ميں کيے گئے۔ اس معاہدے کی شرائط کے تحت افغانستان ميں 2014ء کے اواخر تک غير ملکی افواج کے انخلاء کے بعد بھی وہاں مجموعی طور پر بارہ ہزار غير ملکی فوجی تعينات رہ سکيں گے۔ ان ميں 9,800 فوجی امريکی ہوں گے جبکہ بقایا فوجی مغربی دفاعی اتحاد نيٹو کے ديگر رکن ممالک سے ہوں گے۔

افغانستان ميں 2014ء کے ابعد بھی مجموعی طور پر بارہ ہزار غير ملکی فوجی تعينات رہ سکيں گے
افغانستان ميں 2014ء کے ابعد بھی مجموعی طور پر بارہ ہزار غير ملکی فوجی تعينات رہ سکيں گےتصویر: picture-alliance/dpa/Marcel Mettelsiefen

معاہدے پر دستخط کيے جانے کے بعد نو منتخب صدر اشرف غنی نے افغان عوام سے اپنے خطاب ميں کہا، ’’ايک آزاد ملک ہونے کے ناتے اور اپنے قومی مفادات کے تحت ہم نے اپنے عوام کی خوشحالی، استحکام اور خير سگالی کے علاوہ خطے اور عالمی استحکام کے ليے معاہدے پر دستخط کيے ہيں۔‘‘

يہ امر اہم ہے کہ سبکدوش ہونے والے افغان صدر حامد کرزئی ايک عرصے سے اس معاہدے پر دستخط کو موخر کرتے آئے ہيں، جس سبب کابل اور واشنگٹن کے باہمی تعلقات ميں کافی کھچاؤ بھی پيدا ہوا۔ کرزئی افغانستان ميں ہونے والی شہری ہلاکتوں سے نالاں تھے اور ان کا ايسا بھی ماننا تھا کہ افغان جنگ افغانستان کے مفاد ميں نہيں لڑی جا رہی۔

افغان طالبان نے کابل اور واشنگٹن کے مابين اس معاہدے کی مذمت کرتے ہوئے يہ الزام عائد کيا ہے کہ يہ ’افغانستان پر کنٹرول قائم کرنے کے ليے اور عالمی سطح پر اپنے آپ کو عسکری سپر پاور منوانے کے ليے امريکا کا ايک گھناؤنا منصوبہ ہے۔‘ طالبان کی جانب سے ذرائع ابلاغ کو آج ارسال کردہ ايک ای ميل ميں مندرجہ ذيل الفاظ درج ہيں، ’’سکيورٹی معاہدے کے نام پر آج امريکی اپنے آپ کو ايک اور خطرناک لڑائی کے ليے تيار کرنا چاہتے ہيں۔‘‘

افغانستان ميں جون ميں منعقدہ صدارتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ تنازعے کی نظر ہو گيا تھا۔ اقوام متحدہ کی طرف سے آٹھ ملين ووٹوں کی دوبارہ گنتی اور آڈٹ سميت کئی ماہ کی سفارت کاری کے بعد کہيں جا کر دونوں اميدواروں کے مابين ايک متحد حکومت کے قيام پر اتفاق ہوا۔ اس دوران طالبان نے جنوبی صوبے ہلمند اور شمالی صوبے قندوز ميں اپنی سرگرمياں بڑھا ديں ہيں۔