1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

الیکسِس سِپراس یونان کے نئے وزیراعظم

عابد حسین26 جنوری 2015

کل اتوار کے روز ہونے والے پارلیمانی الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے والی بائیں بازو کی سیاسی جماعت سیریزا کے لیڈر الیکسِس سِپراس نے پیر کی پہر میں اپنے ملک یونان کے وزیراعظم کا حلف اٹھا لیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1EQlD
سپراس حلف اٹھانے کے بعد دستخط کرتے ہوئےتصویر: AFP/Getty Images/A. Messinis

اتوار کے پارلیمانی انتخابات میں قدامت پسند سیاستدان اور سابق وزیراعظم انتونِس ساماراس کی سیاسی جماعت کو شکست ہوئی تھی۔ الیکشن جیتنے والے الیکسِس سِپراس نے پیر کی سہ پہر میں یونان کے نئے وزیراعظم کا حلف اٹھا لیا ہے۔ وہ گزشتہ ڈیڑھ سو برسوں میں منصبِ وزارت عظمیٰ پر فائز ہونے والے سب سے کم عمر ترین سیاستدان ہیں۔ ان کی عمر چالیس برس ہے۔ انہوں نے روایتی مذہبی نہیں بلکہ سویلین حلف اٹھایا ہے۔ اس موقع وہ بغیر ٹائی کے تھے۔ اتوار کے الیکشن میں سِپراس کی بائیں بازو کی سیاسی جماعت سیریزا کو 149 نشستیں حاصل ہوئی ہیں۔ وہ کل منگل کے روز اپنی کابینہ کا اعلان کریں گے۔

Tsipras Vereidigung zum neuen Premierminister 26.01.2015 Athen
سپراس ملکی صدر کے سامنے سویلین حلف اٹھاتے ہوئےتصویر: Reuters/Y. Behrakis

حلف برداری کی تقریب سے قبل وہ یونان کے صدر کارلوس پاپولیاس سے بھی ملاقات کے لیے گئے تھے۔ صدر سے ملاقات کے دوران سپراس نے گفتگو کے دوزان کہا کہ انہیں ایک مشکل راستے کا سامنا ہے اور وہ ہمت کے ساتھ اپنی منزل کا حصول چاہتے ہیں۔ حلف برداری کی تقریب سے قبل نئے یونانی وزیراعظم نے یونان کے آرتھوڈکس چرچ کے آرچ بشپ لیرونیموس سے ملاقات کی اور انہیں بتایا کہ وہ غیر مذہبی حلف اٹھانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ اِس طرح سِپراس نے بائبل پر حلف نہیں لیا اور نہ ہی مقدس پانی کا اپنے اوپر چھڑکاؤ کروایا۔ حلف اٹھانے سے قبل سپراس نے انڈیپنڈنٹ گریک پارٹی کے ساتھ مخلوط حکومت سازی کی ڈیل کو بھی طے کیا۔ اِس چھوٹی پارٹی کے پاس پارلیمنٹ کی تیرہ نشستیں ہیں۔ حکومت بنانے کے لیے سپراس کو صرف دو اراکین کی حمایت درکار تھی۔

Tsipras Vereidigung als neuer Premierminister 26.01.2015 Athen
سپراس صدرکارلوس پاپولیاس سے حلف اٹھانے کے بعد ہاتھ ملاتے ہوئےتصویر: AFP/Getty Images/A. Messinis

گزشتہ چالیس برس سے یونان کی سیاست اور حکومت پر قدامت پسند نیو ڈیموکریٹک پارٹی اور بائیں بازو کی سوشلسٹ جماعت پاسوک (PASOK) کی اجارہ داری قائم رہی ہے۔ سن انیس چوہتر میں فوجی حکومت کے خاتمے کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ ایک نیا سیاسی منظر یونان میں طلوع ہوا ہے۔ سپراس نے عندیہ دیا ہے کہ وہ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے لیڈران کے ساتھ بات چیت کریں گے۔ اِس کے علاوہ وہ نئی سیاسی جماعت پوٹامی اور کمیونسٹ پارٹی KKE کے لیڈروں سے بھی ملیں گے۔ نئے وزیراعظم سِپراس کی حکومت میں وزراتِ خزانہ کا قلمدان یانس وارُوفاکِس کو تفویض کیے جانے کا قوی امکان ہے۔ وہ سیریزا پارٹی کے سینیئر رہنماؤں میں شریک ہوتے ہیں۔ گزشتہ کئی برسوں سے وہ بچتی پالیسیوں کے سخت ناقد ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ یونان کی عوام نے امید کے حق میں اپنا ووٹ ڈالا ہے۔

یورپی سیاسی منظر کے ماہرین کا خیال ہے کہ یونان میں الیکسِس سِپراس کی کامیابی کئی اور ملکوں میں بچتی پالیسیوں کی مخالفت کرنے والی سیاسی جماعتوں کے لیے باعث تقویت ہو سکتی ہے۔ خاص طور پر اقتصادی مشکلات کا سامنا کرنے والے جنوبی یورپ کے ملکوں میں ایسی سیاسی پارٹیاں اگلے مہینوں میں زور پکڑ سکتی ہیں۔ الیکشن میں کامیابی کے بعد یونان میں ایک نئی مہم کا بھی آغاز ہو گیا ہے اور اِس کا عنوان ہے ’ہوپ اِز کَمنگ‘ یعنی امید برقرار رکھو، اچھے دِن آنے والے ہیں۔ دوسری جانب تجزیہ کاروں کا یہ بھی خیال ہے کہ سپراس اور انڈیپنڈنٹ گریک پارٹی کا حکومت سازی کا اتحاد غیر فطری ہے اور یہ دیرپا دکھائی نہیں دیتا۔