1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

القاعدہ میں بھرتی کے لیے سوالنامہ کیسا ہوتا تھا؟

مقبول ملک21 مئی 2015

امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے نے اسامہ بن لادن کے کمپاؤنڈ سے ملنے والی جو دستاویزات جاری کی ہیں، ان کے مطابق اس دہشت گرد نیٹ ورک میں بھرتی کے خواہش مند مستقبل کے جہادیوں سے کئی طرح کے عجیب و غریب سوالات پوچھے جاتے تھے۔

https://p.dw.com/p/1FTaH
تصویر: Picture-Alliance/dpa

سی آئی اے کی طرف سے مجموعی طور پر ایسی جو سو سے زائد دستاویزات ابھی حال ہی میں ذرائع ابلاغ کے سامنے پیش کی گئیں، ان کے مطالعے سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ بن لادن کی سربراہی میں القاعدہ میں بھرتی سے پہلے عسکریت پسندانہ سوچ کے حامل افراد کے بارے میں کس طرح پوری تسلی کی کوشش کی جاتی تھی کہ ایسے جنگجو اس نیٹ ورک کے مقاصد کے حصول میں زیادہ سے زیادہ معاون ثابت ہو سکیں۔

جمعرات اکیس مئی کے روز جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی واشنگٹن سے موصولہ رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ اگرچہ غیر جانبدار ذرائع سے اس امر کی حتمی تصدیق مشکل ہے کہ امریکی کمانڈوز کو مبینہ طور پر ایبٹ آباد میں بن لادن کے کمپاؤنڈ سے ملنے والی یہ دستاویزات یا ان کے ترجمے کس حد تک قابل اعتماد ہیں تاہم جو حقائق منظر عام پر لائے گئے ہیں، ان کے مطابق القاعدہ میں بھرتی سے پہلے مستقبل کے جہادیوں سے عام نوعیت کے سوال بھی پوچھے جاتے تھے اور ایسے سوالات بھی جو دنیا میں ’کسی بھی ملازمت کے لیے بھرتی سے پہلے کہیں نہیں پوچھے جاتے‘۔

ڈی پی اے نے لکھا ہے کہ القاعدہ کی طرف سے مانگی جانے والی معلومات یا ’ملازمت کے لیے بھرتی کی درخواست‘ کے آخر میں ایک سوال یہ بھی پوچھا جاتا تھا کہ اگر ’درخواست دہندہ شہید ہو گیا تو کس سے رابطہ کیا جانا چاہیے‘۔

اس سوالنامے میں جہادیوں کی صفوں میں بھرتی کے خواہش مند افراد سے جو بھی معلومات حاصل کی جاتی تھیں، ان کا مقصد یہ اندازہ لگانا ہوتا تھا کہ کوئی درخواست دہندہ کس طرح کی مذہبی سوچ کا حامل ہے، کیا وہ دہشت گردانہ کارروائیوں میں حصہ لے سکے گا یا اسے صرف مسلح حملوں کے لیے رابطہ کار کے طور پر استعمال کیا جانا چاہیے؟

Ehemaliges Versteck von Osama bin Laden in Abbotabad Pakistan
ایبٹ آباد کا وہ رہائشی کمپاؤنڈ جسے بن لادن کی ہلاکت کے بعد منہدم کر دیا گیا تھاتصویر: picture-alliance/dpa

ایسے سوالات میں یہ باتیں کھل کر پوچھی جاتی تھیں کہ متعلقہ امیدوار کتنے عرصے تک ’جہاد‘ میں حصہ لینے کا ارادہ رکھتا ہے، وہ ’جہاد کی راہ‘ اختیار کرتے ہوئے ذاتی طور پر کس طرح کے مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے، اسے ادب سے زیادہ شغف ہے یا سائنس سے، وہ کس طرح کی کتابیں شوق سے پڑھتا ہے اور آیا وہ ایسے کارکنوں یا ماہرین کو جانتا ہے جنہیں کیمسٹری، کمیونیکیشن یا کسی دوسرے شعبے میں مہارت حاصل ہو؟

ڈی پی اے کے مطابق اسی سوالنامے میں امیدواروں سے یہ بھی دریافت کیا جاتا تھا کہ ان کے پاس مجموعی طور پر کتنے ملکوں کے پاسپورٹ موجود ہیں اور ان میں سے کتنے اصلی اور کتنے نقلی ہیں؟

اس کے علاوہ ہر امیدوار سے پوچھا جانے والا ایک سوال یہ بھی ہوتا تھا کہ آیا وہ کسی خودکش حملے میں حصہ لینے پر بھی تیار ہے؟ ایسے تمام ذاتی کوائف کا حصول اور ان کا تجزیہ مبینہ طور پر القاعدہ کی قیادت کی اس سوچ کا نتیجہ تھا کہ اس کا ہر دہشت گردانہ منصوبہ زیادہ سے زیادہ کامیاب رہنا چاہیے۔