الجزائر کا انتظام کس کے ہاتھ ہو گا؟
19 اپریل 2014الجزائز کے صدر عبدالعزیز بوتفلیقہ گزشتہ برس فالج کا حملے کے بعد سے ویل چیئر پر ہیں۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران انہوں نے ایک مرتبہ بھی کسی عوامی تقریب سے خطاب نہیں کیا اور نہ ہی کسی ریلی میں دکھائی دیے لیکن اس کے باوجود جمعرات کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں انہیں 81 فیصد ووٹ ملے ہیں۔ الجزائر نوجوانوں کا ملک کہلاتا ہے اور اس کی 37 ملین آبادی میں سے 80 فیصد 45 سال سے کم عمر ہیں۔ اس دوران آئے دن بے روزگاری سے تنگ آئے ہوئے نوجوان مظاہرے کرتے ہیں اور حکومت کو یاد دلاتے ہیں کہ اس نے عوام سے بہتر سہولیات زندگی فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ تاہم اب تیل کے ذخائر کم ہوتے جا رہے ہیں اور اس وجہ سے ایک ایسے نئے نظام کی ضرورت ہے، جس کے ذریعے عوامی مطالبات کو پورا کیا جا سکے۔
موجودہ صورتحال پر نظر ڈالیں تو ملکی چیفس آف اسٹاف قاید صالح کی عمر 78 برس ہے۔ خفیہ ایجنسی کے سربراہ محمد مدین 74 برس کے ہیں جبکہ صدر عبدالعزیز بوتفلیقہ 77 برس کے ہو چکے ہیں اور وہ 1999ء سے صدر کے عہدے پر فائز ہیں۔ ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کیا جا سکا ہے کہ اگر بوتفلیقہ کو کچھ ہو جاتا ہے تو ان کا جانشین کون ہو گا ؟۔ شمالی افریقی امور کی ایک ماہر امل بوبکر کے بقول یہ پرانے اور فرسودہ نظام کا خاتمہ اور ایک نئے کی شروعات ہے۔ بوبکر مزید کہتی ہیں کہ ملکی اشرافیہ جسے بھی نئے رہنما کے طور پر منتخب کرے گی اس کا مرتبہ بوتفلیقہ کے برابر نہیں ہو گا۔
الجزائر میں حزب اختلاف کی جماعتیں ماضی میں حکومت سے مفاہمت رکھتی تھیں تاہم اس مرتبہ انہوں نے اپنی انتخابی مہم میں نظام کو تبدیل کرنے پر توجہ مرکوز رکھی۔ ساتھ ہی انہوں نے بدعنوانی کے خدشے کی وجہ سے انتخابات کے بائیکاٹ کا بھی مطالبہ کیا تھا۔ ان انتخابات میں بوتفلیقہ کے حریف علی بن فلیس کو تقریباً 12 فیصد ووٹ ملے ہیں۔ ملکی کی وزارت داخلہ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ الجزائر کے عوام نے آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انداز میں اپنے ووٹ کا استعمال کیا ہے۔ اس سے قبل بن فلیس نے انتخابی عمل کے دوران دھاندلیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے بوتفلیقہ کی کامیابی کو مسترد کر دیا ہے۔ انہوں نے اپنی ایک پریس کانفرنس میں کہا ’’ انتخابی نتائج کو تسلیم کرنا اس دھوکہ دہی میں شامل ہونے کے مترادف ہو گا ‘‘۔