افغانستان کے نئے صدر ڈاکٹر اشرف غنی احمدزئی نے حلف اٹھا لیا
29 ستمبر 2014افغانستان کی قدیم تاریخ میں گزشتہ قریب تین سو سال میں آج پہلی مرتبہ اقتدار کا پُر امن انتقال دیکھنے میں آیا۔ اپریل اور جون میں منعقدہ صدارتی انتخابات کے متنازعہ ہو جانے کے بعد انتشار اور خونریزی کے جو خدشات اُبھرے تھے وہ اب کافی حد تک ختم ہو چکے ہیں۔ ملک کی دو بڑی اقوام کے نمائندہ اشرف غنی اور عبد اللہ عبد اللہ نے ماضی کے تلخ تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے تنہا حکومت کرنے کے بجائے ملکر کام کرنے کا عہد کیا ہے۔
آج کابل کے صدارتی محل میں قریب تیس ممالک کے حکومتی نمائندوں کی موجودگی میں حلف برداری کی تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا۔ پاکستانی صدر ممنون حسین اور اس پڑوسی ملک کے قوم پرست سیاست دان اسفندیار ولی خان، محمود خان اچکزئی اور آفتاب شیرپاو مہمانوں کی قطار میں اولین صف میں موجود تھے۔
اشرف غنی نے صدر مملکت کی حیثیت سے حلف اٹھانے کے بعد اپنے معاونین عبد الرشید دوستم اور سرور دانش سے نائب صدور کے عہدوں کا حلف لیا۔ بعد میں ملک کے نئے چیف ایگزیکٹیو عبد اللہ عبد اللہ اور ان کے معاونین محمد خان اور محمد محقق سے بھی حلف لیا گیا۔
معاہدے کے تحت اشرف غنی سربراہ مملکت کی حیثیت سے اہم نوعیت کے فیصلے کریں گے جبکہ روزمرہ امور اور حکومتی فیصلوں پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کی ذمہ داری چیف ایگزیکٹیو کی حیثیت سے عبد اللہ کے کاندھوں پر ہو گی، جنہیں دو برس بعد آئین میں ممکنہ ترمیم کر کے وزارت عظمیٰ کا قلمدان دیا جائے گا۔
آج اپنے مختصر خطاب میں نئے افغان صدر نے عہد کیا کہ وہ ملک میں امن، اتحاد، خوشحالی اور شفافیت کے فروغ کو یقینی بنانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ احمدزئی نے پڑوسی ممالک اور عالمی برادری کے ساتھ تعلقات کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں عدم استحکام تمام خطے کو متاثر کرتا ہے۔
صدر احمدزئی نے طالبان عسکریت پسندوں اور جنگجووں کو مذاکرات کے تحت مسائل کے حل کی جانب بڑھنے کی دعوت دیتے ہوئے قیام امن کو ملک کے روشن مستقبل کے لیے ناگزیر قرار دیا۔
افغان عوام، بالخصوص سیاسی مبصرین اشرف غنی اور عبد اللہ کی مشترکہ حکومت کے حوالے سے خاصے محتاط انداز میں خدشات اور توقعات کا اظہار کر رہے ہیں۔ ایک بات پر البتہ بڑی حد تک اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ فیصلہ سازی کے عمل میں مختلف نظریات کے حامل لوگوں کی شراکت کے بعد کچھ اضافی مشکلات جنم لیں گی۔
کابل میں جرمن سماجی ادارے فریڈرش ایبرٹ شٹگٹنگ کی سربراہ ایڈریئینا والٹرزڈورف بھی افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے پیشن گوئی کرنے کے معاملے میں محتاط ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’ان کے بقول ایک بات البتہ خوش آئند ہے کہ اقتصادی اصلاحات کے حوالے سے صدر احمدزئی اور ان کے چیف ایگزیکٹیو عبد اللہ دونوں پر عزم ہیں۔‘‘
افغان صدر کو ترجیحی بنیادوں پر جو کام سب سے پہلے نمٹانے ہیں ان میں امریکا اور نیٹو کے ساتھ دفاعی معاہدوں پر دستخط کرنا اور اپنے سابقہ حریف کے ساتھ کابینہ کی تشکیل کا کٹھن مرحلہ طے کرنا شامل ہیں۔