1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان کو پراکسی جنگ کا میدان نہیں بننے دیں گے، اشرف غنی کا سارک میں انتباہ

عاطف توقیر26 نومبر 2014

نئے افغان صدر اشرف غنی نے بدھ کے روز سارک سربراہ اجلاس میں پاکستان اور بھارت کے رہنماؤں کو متنبہ کیا ہے کہ وہ اپنے ملک کو ان کی پراکسی جنگ کا میدان نہیں بننے دیں گے۔

https://p.dw.com/p/1DtyC
تصویر: Reuters/N. Chitrakar

نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو میں جنوبی ایشیائی ممالک کی علاقائی تعاون کی تنظیم سارک کے دو روزہ سربراہی اجلاس میں شریک افغان صدر نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ اپنے ملک کو پاکستان اور بھارت کے درمیان کسی پراکسی جنگ کا میدان نہیں بننے دیں گے۔ اس اجلاس میں ایک طرف تو خطے کے ممالک کے درمیان تعاون بڑھانے کا موضوع زیربحث ہے تاہم دوسری جانب پاکستان اور بھارت کے درمیان موجود کشیدگی کے سائے بھی اس سربراہی اجلاس پر واضح دیکھے جا سکتے ہیں۔

جنوبی ایشیا کی دو جوہری طاقتیں پاکستان اور بھارت ایک طویل عرصے سے ایک دوسرے پر افغانستان میں اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے پراکسی جنگ کے الزامات عائد کرتی رہی ہیں۔ تاہم رواں برس کے اختتام پر افغانستان سے نیٹو فورسز کے انخلا کے بعد یہ خدشات ہیں کہ یہ دونوں ممالک ایک مرتبہ پھر افغانستان کو اپنی پراکسی جنگ کا میدان بنا دیں گے۔ صدر اشرف غنی نے متنبہ کیا کہ وہ علاقائی تعاون میں اضافہ کریں اور دہائیوں پر پھیلی باہمی دشمنی کا خاتمہ کریں۔

سارک سربراہی اجلاس سے خطاب میں پاکستانی وزیراعظم نواز شریف نے اسی تناظر میں کہا، ’ہم اپنی سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے، تاہم یہ بھی برداشت نہیں کریں گے کہ کوئی ہم پر خفیہ جنگ مسلط کر دے۔‘

یہ بات اہم ہے کہ اشرف غنی کے پیش رو حامد کرزئی اس سلسلے میں پاکستان پر الزام عائد کرتے رہے ہیں کہ وہ خفیہ طور پر افغان طالبان کی مدد کرتا ہے اور ان عسکریت پسندوں کی مضبوط پناہ گاہیں اب بھی پاکستان میں قائم ہیں۔

SAARC Gipfel in Kathmandu Nepal Empfang Nawaz Sharif 26.11.2014
اس موقع پر پاکستانی اور بھارتی وزرائے اعظم کے درمیان ملاقات ہوتی دکھائی نہیں دیتیتصویر: Reuters/Adnan Abidi

اس سے قبل گزشتہ ہفتے سابق پاکستانی صدر پرویز مشرف نے خبردار کیا تھا کہ افغانستان سے نیٹو فورسز کے انخلا کے بعد پاکستان اور بھارت افغانستان میں فرقہ ورانہ اور نسلی بنیادوں پر موجود تفریق کو ہوا دے کر ایک دوسرے کے خلاف پراکسی وار یا خفیہ جنگ شروع کر سکتے ہیں۔

اشرف غنی نے اپنی تقریر میں پاکستان کا براہ راست نام لیے بغیر کہا کہ کسی ریاست کی جانب سے غیر ریاستی عناصر کی پشت پناہی کے تباہ کن اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ ’یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ایسے اقدامات کے اثرات خود پر بھی پڑتے ہیں اور ریاستی نظام غیرمستحکم ہوتا ہے۔‘

یہ سارک سربراہی اجلاس ایک ایسے موقع پر ہو رہا ہے کہ جب خطے کے دو حریف ممالک پاکستان اور بھارت شدید سرحدی کشیدگی کی لپیٹ میں ہیں۔ اس سے قبل یہ توقعات ظاہر کی جا رہی تھیں کہ دونوں ممالک اس سلسلے میں سارک پلیٹ فارم کو استعمال کر کے کشیدگی میں کمی کی کوشش کر سکتے ہیں۔ اس حوالے سے بھارتی وزیراعظم مودی اور پاکستانی وزیراعظم نواز شریف کی ممکنہ ملاقات کی چہ مگوئیاں بھی کی جا رہی تھیں، تاہم بھارتی حکومت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اس اجلاس کے موقع پر مودی پاکستانی قیادت کے علاوہ سارک کے تمام رکن ریاستوں کے سربراہان سے ون ٹو ون ملاقاتیں کریں گے۔

اس اجلاس میں بھارتی وزیراعظم نے کہا کہ ان کا ملک دو برس بعد سارک اجلاس کے موقع پر علاقائی سیٹلائٹ خلا میں چھوڑے گا۔ اس سے قبل جون میں نریندر مودی نے کہا تھا کہ بھارت کے جدید خلائی پروگرام کے ثمرات خطے کے دیگر ممالک تک بھی پہنچنا چاہیئں۔

اس موقع پر بھارتی وزیراعظم نے اعلان کیا کہ نئی دہلی حکومت سارک اقوام کے شہریوں کو تین سے پانچ برس کی معیاد کے بزنس ویزوں کے اجرا کا آغاز بھی کرے گی۔