1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان میں امریکی فوج کا مستقبل، واشنگٹن حکومت کی منصوبہ بندی

عاطف توقیر23 اپریل 2014

واشنگٹن حکومت ان دنوں متعدد ايسے نئے آپشنز پر غور کر رہی ہے، جن کے تحت رواں برس کے اختتام پر افغانستان میں امريکی فوجیوں کے قیام یا انخلاء سے متعلق حتمی فیصلے کیے جا سکيں گے۔

https://p.dw.com/p/1BmPA
تصویر: Peter Parks/AFP/Getty Images

منگل کے روز ایک اعلیٰ امریکی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ اوباما انتظامیہ نے امريکی محکمہ دفاع يا پینٹاگون سے افغانستان میں امریکی فوج کے مستقبل کے حوالے سے نئے آپشنز کا کہا ہے۔ اس عہدیدار کا کہنا تھا کہ اوباما انتظامیہ نے اس سلسلے میں ہدایات دی ہیں کہ افغانستان میں زیرو تا دس ہزار فوجیوں کے قیام سے متعلق تجاویز دی جائیں۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق واشنگٹن انتظامیہ اس وقت اس بحث میں مصروف ہے کہ افغانستان کی سلامتی اور امن کے لیے رواں برس کے اختتام پر کتنے امریکی فوجیوں کی موجودگی ضروری ہے۔ خیال رہے کہ 31 دسمبر کو افغانستان میں نیٹو کا فوجی مشن اختتام پذیر ہو رہا ہے، تاہم امریکا کی خواہش ہے کہ رواں برس کے بعد بھی کچھ امریکی فوجی افغانستان میں تعينات رہیں، جو افغان فوجیوں کی تربیت اور مشاورت کے علاوہ کچھ مخصوص حالات میں انسداد دہشت گردی آپریشنز میں مقامی فورسز کی معاونت کریں۔

Ausbildung afghanischer Polizisten durch deutsche Militärpolizei in Faisabad
امریکی چاہتا ہے کہ کچھ امریکی فوجی رواں برس کے اختتام کے بعد بھی افغانستان میں مقیم رہیںتصویر: Michael Kappeler/AFP/Getty Images

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اس حوالے سے امریکی حکومت میں دو مختلف آراء پائی جاتی ہیں، جن میں ایک طرف تو اعلیٰ فوجی قیادت ہے، جس کا خیال ہے کہ افغانستان میں سلامتی کی صورتحال قائم رکھنے کے لیے بڑی تعداد میں امریکی فوجیوں کی ضرورت ہو گی۔ تاہم دوسری جانب واشنگٹن انتظامیہ کے چند اعلیٰ عہدیدار سمجھتے ہیں کہ افغان فورسز صلاحیت کے اعتبار سے خاصی بہتر ہو چکی ہیں اور اب افغانستان میں زیادہ امریکی فوجیوں کی ضرورت نہیں۔

اس سے قبل امریکی اور نیٹو ممالک کا منصوبہ تھا کہ رواں برس کے بعد افغانستان میں آٹھ ہزار تا بارہ ہزار فوجی تعینات رہنا چاہیے، جو افغان فورسز کی تربیت اور مشاورت کا کام انجام دیں اور انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں بھی شریک ہوں۔ تاہم اس باہمی سکیورٹی معاہدے پر افغان صدر حامد کرزئی نے دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

صدر کرزئی کا موقف ہے کہ نیا منتخب افغان صدر اس معاہدے پر دستخط کے حوالے سے حتمی فیصلہ کرے گا۔ واضح رہے کہ صدر کرزئی دو مرتبہ عہدہ صدارت پر براجمان رہنے کے بعد اب رخصت ہو رہے ہیں، جب کہ رواں ماہ کے آغاز پر ہونے والے صدارتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں ڈالے جانے والے ووٹوں کی گنتی جاری ہے۔ دستور کے مطابق صدر کرزئی تیسری مدت کے لیے عہدہ صدارت کے امیدوار نہیں ہو سکتے۔