1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان: شناخت کے بعد 15 شیعہ مسافر قتل

امجد علی25 جولائی 2014

مغربی افغانستان میں باغیوں نے ایک بس کو روکا اور اُس میں سے پندرہ شیعہ مسافروں کو شناخت کر کے الگ کرنے کے بعد گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ مرنے والوں میں ایک تین سالہ بچہ اور تین خواتین بھی شامل ہیں۔

https://p.dw.com/p/1CiqH
افغانستان کے صوبے غور کا ایک منظر، جہاں قتل کا یہ ہولناک واقعہ پیش آیا
افغانستان کے صوبے غور کا ایک منظر، جہاں قتل کا یہ ہولناک واقعہ پیش آیاتصویر: picture-alliance/Jane Sweeney

جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق جمعہ پچیس جولائی کو افغان صوبے غور کے گورنر کے ایک ترجمان نے مزید بتایا کہ مرنے والے سبھی افراد عام شہری تھے۔ بتایا گیا ہے کہ ان مسافروں کو سروں اور سینوں میں گولیاں ماری گئیں۔ ایک مسافر وہاں سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔

بتایا گیا ہے کہ ضلع لال کی طرف جانے والی بس پر یہ حملہ جمعرات کی شام کو دیر گئے کیا گیا۔ اگرچہ طالبان نے ابھی اس حملے کی ذمے داری قبول نہیں کی ہے لیکن تمام تر آثار سے یہی لگتا ہے کہ اس حملے کے پیچھے اُنہی کا ہاتھ ہے۔

افغانستان میں شیعہ مسلمانوں کی بھی ایک بڑی تعداد آباد ہے، اس تصویر میں عاشورے کا ایک جلوس دارالحکومت کابل کی سڑکوں سے گزر رہا ہے
افغانستان میں شیعہ مسلمانوں کی بھی ایک بڑی تعداد آباد ہے، اس تصویر میں عاشورے کا ایک جلوس دارالحکومت کابل کی سڑکوں سے گزر رہا ہےتصویر: DW/H. Sirat

امریکی نیوز ایجنسی اے پی (ایسوسی ایٹڈ پریس) نے مرنے والوں کی تعداد چَودہ بتائی ہے۔ اے پی نے صوبے غور کے گورنر سید انور رحمتی کے حوالے سے بتایا ہے کہ گزشتہ شب طالبان نے کابل سے جانے والی تین ویگنوں کو روکا، جن پر تقریباً تیس مسافر سفر کر رہے تھے۔ مسافروں سے پوچھ گچھ کے بعد عسکریت پسندوں نے تین خواتین سمیت چَودہ ہزارہ شیعہ مسافروں کو الگ کیا، اُن کے ہاتھ باندھ دیے اور اُنہیں کچھ دور لے جا کر گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ دیگر مسافروں کو جانے کی اجازت دے دی گئی۔

مرنے والوں میں ایک نوجوان جوڑا بھی شامل تھا، جس کی منگنی ہو چکی تھی اور جو اپنے دو دیگر عزیزوں کے ہمراہ سفر کر رہا تھا۔ گورنر رحمتی کے مطابق یہ لوگ عید الفطر کی خریداری کے لیے کابل گئے تھے اور اب وہاں سے اپنے گھروں کو لوٹ رہے تھے۔

فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی نے حملے کا نشانہ بننے والی منی بسوں کی تعداد دو بتائی ہے اور بتایا ہے کہ مسافروں کو سڑک کے کنارے ایک قطار میں کھڑا کر دیا گیا اور پھر ایک ایک کر کے گولی مار دی گئی۔ اے ایف پی کے مطابق صوبے غور کے پولیس چیف فہیم قائم نے اس واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ اس کے پیچھے طالبان عسکریت پسندوں کا ہاتھ ہے۔

پاکستان کے مغربی علاقوں میں ہزارہ کمیونٹی کے ارکان متعدد حملوں کا نشانہ بنے ہیں، اس تصویر میں افغانستان میں پاکستان کی سرزمین پر ہزارہ شیعوں کے خلاف ہونے والے حملوں پر احتجاج کیا جا رہا ہے
پاکستان کے مغربی علاقوں میں ہزارہ کمیونٹی کے ارکان متعدد حملوں کا نشانہ بنے ہیں، اس تصویر میں افغانستان میں پاکستان کی سرزمین پر ہزارہ شیعوں کے خلاف ہونے والے حملوں پر احتجاج کیا جا رہا ہےتصویر: DW

جمعرات چوبیس جولائی کا دن افغانستان کے لیے ایک اور خونریز دن تھا، جب ملک بھر میں ہونے والے دیگر پُر تشدد واقعات میں مزید کم از کم چَودہ انسان لقمہء اجل بن گئے۔ ان مرنے والوں میں ایک مسیحی فلاحی تنظیم سے تعلق رکھنے والی فن لینڈ کی دو کارکن خواتین بھی شامل ہیں، جنہیں نامعلوم مسلح افراد نے صوبے ہرات میں اُس وقت نشانہ بنایا، جب وہ ایک ٹیکسی میں سفر کر رہی تھیں۔

سالِ رواں کے اواخر تک افغانستان میں مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی جنگی سرگرمیاں بھی اپنے اختتام کو پہنچ رہی ہیں اور جیسے جیسے وہ وقت قریب آ رہا ہے، افغانستان میں پُر تشدد واقعات میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

افغانستان میں یہ امر بھی بے یقینی کا باعث بن رہا ہے کہ ابھی تک اُن صدارتی انتخابات کے فاتح کا اعلان نہیں کیا گیا ہے، جنہیں منعقد ہوئے تین مہینے سے بھی زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے۔ الیکشن کمیشن نے سترہ جولائی سے اُن تمام 8.1 ملین ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا آغاز کیا ہے، جو چَودہ جون کو منعقد ہونے والے صدارتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں ڈالے گئے تھے۔