1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان: تحفظ حقوق نسواں پر خوف کے سائے

عصمت جبیں24 نومبر 2014

افغان پارلیمان کی رکن اور حقوق نسواں کی علمبردار شکریہ بارکزئی کے مطابق ایک ہفتہ قبل ان کے قافلے پر ہلاکت خیز خود کش بم حملہ افغان خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے ان کی آواز خاموش کرانے کی ایک کوشش تھا۔

https://p.dw.com/p/1Ds7m
شکریہ بارکزئیتصویر: DW/W. Hasrat-Nazimi

نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی کابل سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق اس حملے میں ایک خود کش حملہ آور نے شکریہ بارکزئی کو ہلاک کرنے کے لیے ان کی بکتر بند گاڑی کو بم دھماکے کا نشانہ بنایا تھا۔ اس بم حملے میں شکریہ تین عام شہری ہلاک ہو گئے تھے جبکہ شکریہ بارکزئی کو صرف معمولی چوٹیں آئی تھیں۔

Rula Ghani
افغان صدر اشرف غنی کی اہلیہ رولا غنی نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ افغانستان کے بچوں اور عورتوں کے حقوق کے لیے کام کریں گیتصویر: Esmat Mohib

کابل میں افغانستان کی قومی پارلیمان کی یہ رکن اپنی صاف گوئی کے لیے مشہور ہیں اور وہ خواتین کے حقوق کے تحفظ کی کوششوں میں بھی پیش پیش رہتی ہیں۔ بارکزئی نے سن دو ہزار پانچ میں روئٹرز کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ افغانستان میں طالبان کے پانچ سالہ دور اقتدار کے دوران خفیہ طور پر لڑکیوں کا ایک اسکول بھی چلاتی رہی تھیں۔ وہ یہ اسکول خفیہ طور پر اس لیے چلاتی تھیں کہ طالبان انتظامیہ نے خواتین پر سخت قسم کی پابندیاں عائد کر رکھی تھیں۔

افغانستان میں طالبان کی حکومت کو امریکا کی فوجی مدد سے افغان دستوں نے سن دو ہزار ایک میں امریکا پر دہشت گردانہ حملوں کے بعد فوجی مداخلت کر کے اقتدار سے علیحدہ کر دیا تھا۔ طالبان انتظامیہ کے خلاف فوجی کارروائی کی وجہ اس کا القاعدہ کی قیادت کو امریکا کے حوالے کرنے سے انکار بنا تھا۔

اس پس منظر میں افغانستان کی معروف ترین خواتین اراکین پارلیمان میں شمار ہونے والی شکریہ بارکزئی نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو کابل کے ایک ہسپتال میں دیے گئے اپنے انٹرویو میں کہا، ’’صاف ظاہر ہے کہ مجھ پر حملہ اس لیے کیا گیا کہ میں خواتین کے حقوق کے لیے آواز اٹھاتی ہوں۔ میں عورتوں کے حقوق کی بات کرتی ہوں، انسانی حقوق کی بات کرتی ہوں، میں جمہوریت اور آزادی رائے کی اہمیت سے بخوبی واقف ہوں۔‘‘

Afghanistan Internationales Frauen-Filmfestival
’افغان خواتین کو ان کے حقوق دیے بغیر ملک میں قیام امن کی جو بھی کوشش کی جائے گی، وہ پائیدار ثابت نہیں ہو گی‘تصویر: DW/Hashimi

شکریہ بارکزئی پر 16 نومبر کو کیے گیے اس حملے کی ذمہ داری تاحال کسی نے قبول نہیں کی۔ لیکن اس حملے کا شبہ افغان طالبان کے حقانی گروپ پر ظاہر کیا جا رہا ہے۔

کابل حکومت کو اس وقت طالبان کے بڑھتے ہوئے حملوں کا سامنا ہے جو خود کو افغانستان سے اس سال کے آخر تک غیر ملکی فوجی انخلا کے بعد زیادہ مضبوط دیکھنے کے خواہش مند ہیں۔ لیکن افغانستان میں خواتین وہاں سے نیٹو دستوں کے آئندہ انخلاء کے بعد اپنے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے واضح خوف میں مبتلا ہیں۔

افغان صدر اشرف غنی کی قریبی اتحادی سیاستدان شکریہ بارکزئی کا کہنا ہے کہ قدامت پسند افغان معاشرے میں خواتین عموماً پردے میں رہتی ہیں اور سرکاری سطح پر بھی ان کی شمولیت خاصی کم ہے۔ لیکن ان کے مطابق ملک کو ترقی اور امن کے راستے پر گامزن کرنے کے لیے خواتین کو اس سارے عمل میں شامل کرنا بے حد ضروری ہے۔

شکریہ بارکزئی کے بقول افغان خواتین کو ان کے حقوق دیے بغیر ملک میں قیام امن کی جو بھی کوشش کی جائے گی، وہ پائیدار ثابت نہیں ہو گی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید