1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان ووٹروں کو دھوکہ ديا جا رہا ہے، تبصرہ

فلوريان وائیگانڈ / AS22 ستمبر 2014

ڈوئچے ويلے کے تبصرہ نگار فلوريان وائیگانڈ اپنے ايک تبصرے ميں لکھتے ہيں کہ افغان صدارتی اليکشن کے نتائج کے اعلان سے قبل ہی دونوں مرکزی اميدواروں کے مابين سمجھوتہ ملک ميں جمہوريت کے ليے خطرہ ہے۔

https://p.dw.com/p/1DGcY
تصویر: Reuters/Omar Sobhani

افغان انتخابات کے نتيجے سے ملکی عوام نالاں ہيں۔ بہت سے لوگ ملکی قيادت کے حوالے سے اپنے تاثرات کا اظہار سوشل ميڈيا پر کر رہے ہيں۔ زيادہ تر پيغامات اور تحريريں منفی ہيں، جو لوگوں کی الجھن کی نشاندہی کرتی ہيں اور اس سے مستقبل بھی کافی تاريک دکھائی ديتا ہے۔ اس وقت افغان عوام ميں يہ احساس پايا جاتا ہے کہ جيسے سب کچھ پہلے سے طے تھا اور ملکی حالات و سياست پر ان کا کوئی اختيار نہيں ہے۔

چند ماہ قبل عوام کا جوش و خروش اور ماحول دونوں ہی کافی مختلف تھے۔ کئی سالہ جنگ سے بدحال افغان عوام نے اپنے جان و مال کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپريل اور پھر جون ميں دو مرتبہ انتخابات ميں بڑھ چڑھ کر حصہ ليا۔ طالبان کی دھمکيوں کے باوجود پولنگ اسٹيشن کے باہر ووٹروں کی لمبی لمبی قطاروں نے دنيا بھر ميں يہ پيغام پھيلايا کے افغانستان ميں اب بھی اميد قائم ہے اور بظاہر ايسا لگ رہا تھا کہ جمہوريت اب افغان عوام سے بہت قريب ہے۔

اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ
اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہتصویر: Getty Images

اپريل 2014ء ميں منعقدہ صدارتی اليکشن کے پہلے مرحلے ميں عبداللہ عبداللہ سرفہرست رہے جبکہ بعد ازاں جون ميں ہونے والی دوسرے مرحلے کی رائے شماری ميں اشرف غنی سرخرو ہوئے۔ ان نتائج نے کئی شکوک و شبہات کو جنم ديا اور دونوں اطراف سے دھاندلی کے الزامات لگائے گئے۔ اقوام متحدہ کی نگرانی ميں قريب آٹھ ملين ووٹوں کی گنتی اور آڈٹ کرايا گيا۔ دريں اثناء دونوں اميدواروں نے ايک متحدہ حکومت کے قيام کے ليے کوششيں شروع کر ديں۔ پھر کافی کوششوں کے بعد اتوار اکيس ستمبر کو کہيں جا کر دونوں اميدواروں نے اس حوالے سے ايک معاہدے پر دستخط کر ديے۔ اگرچہ تنازعے کے خاتمے کے ليے دونوں اميدواروں پر مشتمل حکومت ايک راستہ ضرور ہے تاہم يہ راستہ افغانستان ميں جمہوريت کے ليے ’جان ليوا‘ ثابت ہو سکتا ہے۔

فلوريان وائیگانڈ لکھتے ہيں کہ افغان ووٹروں کو ايسا لگا ہو گا کہ جيسے ان کے ووٹوں کی کوئی اہميت نہيں اور آخر ميں اقتدار کا فيصلہ کسی اور کے ہاتھ ميں ہے۔ يہ امر اہم ہے کہ اقتدار ميں شراکت کے حوالے سے اس سمجھوتے پر دستخط انتخابات کے سرکاری نتائج کے اعلان سے قبل ہی کر ديے گئے تھے۔ معاہدے کے تحت اشرف غنی افغانستان کے آئندہ صدر ہوں گے جبکہ عبداللہ عبداللہ چيف ایگزيکيٹو، جو کہ ايک نيا منصب ہے، کی ذمہ دارياں سنبھاليں گے۔

فلوريان وائیگانڈ
فلوريان وائیگانڈتصویر: DW/P. Henriksen

اس سے بھی بدتر بات يہ ہے کہ ان واقعات کے کچھ ہی گھنٹوں بعد اليکٹورل کميشن نے اشرف غنی کو صدر قرار دے ديا۔ کميشن کی طرف سے نہ تو انتخابات کے فاتح کا اعلان کيا گيا اور نہ ہی سرکاری اعداد و شمار جاری کيے گئے۔ يہ عمل ووٹروں کی توہين اور جمہوريت کے ساتھ کھیل کے مساوی ہے۔

انتخابی عمل ميں تاخير اور اس کے نتيجے ميں پيدا ہونے والے سياسی ماحول سے پہلے ہی افغان طالبان فائدہ اٹھا رہے ہيں۔ البتہ اب جبکہ نئی حکومت کا قيام عمل ميں آ رہا ہے اور اہم مسائل پر کام شروع کيا جا سکتا ہے۔ ان ميں سب سے اہم امريکا کے ساتھ باہمی سکيورٹی کے معاہدے پر دستخط اور مالی امداد سے متعلق مذاکرات کی بحالی ہيں۔ اشرف غنی کو ملک ميں اصلاحات متعارف کرانے کے ليے مالی وسائل کی ضرورت ہے تاہم ان وسائل يا فنڈز کی وصولی کے ليے نہ صرف اس نئی متحد حکومت کے تمام ارکان بلکہ افغانستان کے تمام فرقوں اور دھڑوں کو بھی يکساں موقف اپنانا ہو گا۔