1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان مہاجرین کی واپسی کا سلسلہ

فرید اللہ خان، پشاور29 جنوری 2015

سولہ دسمبر کے آرمی پبلک سکول پر دہشت گردی کے واقعے کے بعد خیبر پختونخوا سے افغان مہاجرین کی وطن واپسی کا سلسلہ تیز ہوگیا ہے اس ماہ کے دوران600 سے زیادہ خاندان واپس جاچکے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1EStV
تصویر: Tanveer Mughal/AFP/Getty Images)

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے حکام کے مطابق روزانہ 60 سے70خاندان رضا کارانہ طور پر واپس جاتے ہیں ۔ اقوام متحدہ کے دفتر برائے رضاکارانہ واپسی میں ان افراد کی رجسٹریشن کے بعد انہیں گھر کے استعمال کیلئے ضروری اشیاء اور پاک افغان سرحد تک سفری سہولیات فراہم کی جاتی ہے۔ افغانستان پہنچنے پر انہیں دو سو ڈالر فی کس امداد بھی دی جاتی ہے ۔ پشاور سمیت صوبہ خیبر پختونخوا میں دہشت گردی اور بدامنی کے واقعات میں اضافے کی وجہ سے صوبائی حکومت نے خیبر پختونخوا اور فاٹا سے افغان مہا جرین کے واپسی کے عمل کو تیز کرانے کا مطالبہ کیا اس دوران قانون نافذ کرنے والے اداروں نے غیر قانونی طور پر یہاں مقیم افغان مہاجرین کی گرفتاری کا عمل شروع کردیا ۔

Zeitung Pakistan Afghanische Flüchtlinge
افغان مہاجرین بظاہر کیمپوں میں کسی بڑے کام میں مصروف دکھائی نہیں دیتےتصویر: picture-alliance/dpa/dpaweb

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک کا کہنا ہے کہ صوبائی کابینہ کے فیصلے کے مطابق غیر قانونی افغان مہاجرین کو واپس بھیجا جائیگا۔ انکا کہنا تھا کہ انہوں نے پولیس کو ہدایت کی ہے کہ غیر قانونی مہاجرین کو گرفتار کرواکے اپنے ملک بدر کیا جائے۔ خیبر پختونخوا میں رجسٹرڈ مہاجرین کی تعداد دس لاکھ سے زیادہ ہے یہ لوگ واپس جانے کیلئے تیار ہیں۔ وفاقی حکومت انکے جانے کیلئے فنڈز فراہم کرے تو یہ مہاجرین واپسی کے لیے راضی ہیں۔ پرویز خٹک کا کہا کہ وفاقی حکومت نے رجسٹرڈ مہاجرین کی واپسی کیلئے 31دسمبر 2015تک توسیع دی ہے لیکن ہمارا مطالبہ ہے کہ اس پر نظر ثانی کی جائے کیونکہ ہمیں امن و امان کا مسلہ درپیش ہے۔

Afghanistan Mädchen Koran Schulklasse Flash-Galerie
افغان مہاجر کیمپوں میں بچیوں کو قران کی تعلیم دینے کا سلسل تسلسل سے جاری ہےتصویر: AP

پشاور پولیس کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت کی ہدایت پر غیر قا نو نی افغا ن مہا جرین کے خلاف فا رن ایکٹ کے تحت سر چ اینڈ سڑائیک آپریشن شروع کیا جا چکا ہے۔ روزانہ 70سے 100کے قریب افغا ن مہا جرین کو گرفتار کر کے مقا می عدالت میں پیش کر نے کے بعد انہیں طور خم کے راستے افغانستان روانہ کر دیا جاتا ہے ۔ تاہم پاک افغان سرحد کے ایک اہلکار نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ ناقص انتظامات کی وجہ سے نہ صرف ڈپورٹ کئے جانیوالے لوگ دوسرے راستے سے واپس آتے ہیں بلکہ یو این ایچ سی آر کے تحت مراعات لینے والوں میں بھی زیادہ تر واپس آجاتے ہیں اور یہ یو این ایچ سی آر سے دوبارہ مراعات نہیں لے سکتے لیکن یہاں آکر رہائش اختیار کرسکتے ہیں۔

دوسری جانب صوبائی حکومت کی ہدایت پر پولیس افغان مہاجرین کی سرگرمیوں کی نگرانی بھی شروع کردی گئی ہے۔ اگرچہ مخصوص کارڈ رکھنے والے آج بھی شہر میں کاروبار کررہے ہیں۔ صوبے کے ہر چھاونی میں انکا داخلہ ممنوع کر دیا گیا ہے ۔ پاکستانی اداروں کی ملی بھگت سے بڑی تعداد میں افغانوں نے پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ حاصل کر رکھے ہیں۔ تین عشروں سے زیادہ یہاں رہنے کے بعد انکا کھوج لگانے میں اداروں کو مشکلات کا سامنا ہے ۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق سن 2014 میں 7 ہزار افغان خاندان رضاکارانہ سکیم کے تحت واپس جا چکے ہیں جبکہ صوبائی حکومت کے اقدامات سے واپسی میں تیزی آئی ہے۔اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان میں رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی تعداد1.6ملین ہے جبکہ صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ دس لاکھ سے زیادہ افغان غیر رجسٹرڈ ہیں۔