1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان طالبان کے ساتھ چین میں خفیہ مذاکرات

27 مئی 2015

اطلاعات کے مطابق افغان حکومت نے طالبان کے نمائندوں کے ساتھ چین میں دوبارہ خفیہ مذاکرات کیے ہیں۔ مبینہ طور پر ان مذاکرات میں طالبان کے تین مرکزی رہنماؤں کے ساتھ ساتھ پاکستانی خفیہ ایجنسی کے نمائندے بھی شریک تھے۔

https://p.dw.com/p/1FXCi
Taliban Kämpfer Symbolbild
تصویر: picture-alliance/dpa/Noorullah Shirzada

اطلاعات کے مطابق گزشتہ ہفتے افغانستان کی اعلیٰ سطحی امن کونسل اور طالبان کے نمائندہ وفد کے درمیان چین کے شہر اُرمچی میں دوبارہ خفیہ مذاکرات ہوئے ہیں۔ افغان حکومتی وفد کی نمائندگی معصوم استانکزئی کر رہے تھے، جنہیں حال ہی میں افغان وزیر دفاع نامزد کیا گیا ہے۔ اگر افغان پارلیمان اس کی منظوری دیتی ہے تو جلد ہی وہ یہ عہدہ سنبھال بھی لیں گے۔ امن مذاکرات میں انہیں افغان حکومت کے چیف مذاکرات کار کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

افغان سرکاری وفد کے ساتھ مذاکرات میں طالبان کی سابقہ حکومت کے تین مرکزی رہنما ملا عبدالجلیل، ملا عبدالرزاق اور ملا حسن رحمانی بھی شریک تھے، جو پاکستان سے اُرمچی گئے تھے۔ اُن کے ہمراہ پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے نمائندے بھی تھے۔ دیگر رپورٹوں کے مطابق پاکستانی خفیہ ایجنسی کے اہلکار اس اجلاس میں بطور منتظم شریک تھے۔ قبل ازیں ایسی خبریں منظر عام پر آئی تھیں کہ پاکستان کابل حکومت اور طالبان کے مابین ثالث کا کردار ادا کر رہا ہے، جس پر افغان صدر اشرف غنی نے پاکستان کا شکریہ بھی ادا کیا تھا۔

Mohammad Masoom Stanekzai
افغان حکومتی وفد کی نمائندگی معصوم استانکزئی کر رہے تھےتصویر: dapd

بیجنگ حکام نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ایسی کسی بھی ملاقات سے لاعلم ہیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ افغانستان میں ایسی کسی بھی پرامن پیش رفت کی حمایت کرتے ہیں۔ بیجنگ یونیورسٹی کے ماہر سیاسیات وانگ لیان کے مطابق ایسا ناممکن ہے کہ چین میں مذاکرات ہوں اور حکومت کو اس کی خبر نہ ہو۔

حال ہی میں طالبان اور افغان حکومت کے وفود ایران اور قطر میں اسی طرح کی ملاقاتیں کر چکے ہیں لیکن کابل حکومت اور طالبان کی طرف سے ہمیشہ ان کی تردید ہی سامنے آتی ہے۔ اس مرتبہ بھی افغان امن شوریٰ کے ترجمان شہزادہ شاہد نے ان خبروں کو محض افواہیں قرار دیا ہے، ’’ہمارے پاس چین میں ملاقات سے متعلق کوئی بھی معلومات نہیں ہیں۔‘‘

دوسری جانب افغان ماہرین اور اراکین پارلیمان نے حکومت کی طرف سے ایسے خفیہ مذاکرات کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ صوبہ ہلمند کے رکن پارلیمان اور داخلی سلامتی کمیشن کے قائم مقام صدر حاجی عبدالحئی اخوند زادہ کا کہنا تھا، ’’صدر اشرف غنی نے وعدہ کیا تھا کہ مذاکرات میں شفافیت کا مظاہرہ کیا جائے گا۔ عوام حکومت سے خوش نہیں ہیں۔ صحیح معنوں میں ابھی تک امن مذاکرات کا انعقاد نہیں ہو پایا ہے۔ ابھی تک صرف یہ بات ہو رہی ہے کہ مذاکرات کا آغاز کیسے کیا جائے ، امن کے بارے میں مذاکرات تو بعد میں کیے جائیں گے۔‘‘

افغان ماہر سیاسیات احمد سعیدی کا کہنا ہے کہ طالبان کے سابق رہنماؤں سے مذاکرات ویسے ہی بے فائدہ ہیں، ’’وہ طالبان رہنما، جو خلیجی عرب ملکوں میں بیٹھے ہیں، ان کا آج کے طالبان پر ویسے ہی بہت کم اثر و رسوخ ہے۔‘‘ وہ کہتے ہیں اب معاملہ طالبان کے نئے اور نوجوان کمانڈروں کے ہاتھ میں ہے۔ ماہرین کے مطابق طالبان سے صرف اسی صورت میں مطالبات منوائے جا سکتے ہیں جب پاکستانی خفیہ ایجنسی کابل حکومت کے ساتھ مکمل طور پر مل کر کام کرے۔ ابھی چند روز پہلے کابل اور اسلام آباد کی خفیہ ایجنسیوں کے مابین ایک معاہدہ بھی طے پایا ہے لیکن اس معاہدے پر تنقید بھی کی گئی ہے۔

احمد سعیدی کے مطابق ایسے معاہدے پاکستان کی طرف سے ایک کھیل کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ سعیدی کے مطابق پاکستان کو صرف الفاظ کی جمع پونجی کی بجائے عملی اقدامات کرنا ہوں گے اور حقانی گروپ اور کوئٹہ شوریٰ کے خلاف کارروائی کرنا ہو گی۔