اشرف غنی بیرون ملک مقبول، اندرون ملک تنقید کا نشانہ
30 مارچ 2015اشرف غنی کی سفارتی کوششوں نے انہیں اندرون ملک یعنی افغانستان میں مشکلات سے دوچار کر دیا ہے۔ گزشتہ ستمبر میں ایک دشوار اور طویل انتخابی عمل کے بعد صدارتی منصب پر فائز ہونے والے اشرف غنی اپنے پیش رو حامد کرزئی کی ضد یا اُن کا متضاد نظر آ رہے ہیں۔ بین الاقوامی سفارتی سطح پر انہوں نے جو اقدامات کیے ہیں وہ اُن کے اپنے ملک میں بے چینی اور سخت تشویش کا سبب بنے ہیں۔
اشرف غنی کی طالبان سے متعلق پالیسی
اقتدار میں آنے کے بعد اشرف غنی نے وقت ضائع کیے بغیر سیدھے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کی بحالی پر زور دینا شروع کر دیا، یہ وہ عمل تھا جو افغانستان میں 13 سال سے مکمل جمود کا شکار تھا۔ افغانستان پر امریکی حملے اور کابل میں قائم طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد امریکا کی قیادت میں اس ملک پر 13 سال تک مغربی اتحادی فوج کے تسلط کے دور میں اس عسکریت پسند گروپ کے ساتھ بات چیت یا مذاکرات کا عمل مکمل طور پر جمود کا شکار رہا۔
اشرف غنی کی طرف سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے عمل کی بحالی کی کوششوں کو نہ صرف اندرون ملک مزاحمت کا سامنا ہے بلکہ اس بارے میں عوام اور سیاستدان سمیت ماہرین و مبصرین کی رائے بھی منقسم ہے۔ کابل میں مقیم ایک سیاسی تجزیہ کار ہارون میر کہتے ہیں، ’’طالبان کے ہمارے ساتھ نظریاتی اختلافات ہیں۔ اس لیے کسی معاہدے تک پہنچنا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور نظر آتا ہے۔ یہ انتہا پسندی کی حمایت کرتے ہیں، حقوق نسواں کے مخالف ہیں، لڑکیوں کی تعیلم اور آزادی رائے اور بہت سی دیگر چیزوں کی مخالفت کرتے ہیں۔ یہ وہ بنیادی وجوہات ہیں جن کے سبب طالبان ہمارے ساتھ امن پر رضا مند نہیں۔‘‘
اُدھر کابل کی ایک اعلیٰ امن کونسل کے ایک سینئر رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بیان دیتے ہوئے صدر اشرف غنی کی خارجہ پالیسی اور سفارتی کوششوں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ وہ کہتے ہیں، ’’غنی کے امریکا کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے ابتدا نے طالبان کے ساتھ سیاسی مصالحت کی کوششوں کو مزید پیچیدہ اور مشکل بنا دیا ہے۔ علاقائی اور مغربی طاقتوں کے ساتھ افغانستان کے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش یقیناً ضروری ہے تاہم اس عمل میں ہم کچھ ضرورت سے زیادہ ہی آگے نکل گئے ہیں۔‘‘
امن کونسل کے اس سینئر رکن نے صدراشرف غنی کے حالیہ دورہء امریکا کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کچھ یوں کیا، ’’اپنے دورے کے دوران افغان صدر امریکیوں کا اُن کی قربانیوں کے سلسلے میں شکریہ ادا کرتے رہے تاہم انہوں نے اُن ہزاروں افغان باشندوں کا ذکر تک نہیں کیا، جو افغانستان پر امریکی حملے اور قبضے کے بعد سے اب تک مارے جا چُکے ہیں۔ یہ ایک اشتعال انگیز عمل تھا اور اس کے منفی اثرات طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کی کوششوں پر بھی مرتب ہوں گے۔‘‘
اشرف غنی کی امریکا کے ساتھ سفارتکاری
امریکا سے اعلیٰ تعیلم حاصل کرنے والے اور ورلڈ بینک کے سابق اہلکار اشرف غنی نسبتاً نپے تُلے اور محتاط الفاظ کا استعمال کرتے ہیں۔ انہوں نے پاکستان کو جن غیر معمولی مراعات کی پیشکش کی ہے، اُس کی مثال نہیں ملتی۔ ان میں عسکری اور انٹیلیجنس تعاون کی پیشکش بھی شامل ہے۔ انہوں نے افغان کیڈٹس کو پاکستان کی ملٹری اکیڈمی کی تربیت کے حصول کے لیے کاکول بھیجا۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ اشرف غنی نے حامد کرزئی کی طرف سے بھارت کو دیے گئے دیرینہ بھاری اسلحے کے آرڈرز کو بھی معطل کر دیا۔
افغانستان کے انسٹیٹیوٹ آف اسٹریٹیجک اسٹڈیز کے ڈائریکٹر داؤد مورادیان کے بقول، ’’پاکستان کے ساتھ مفاہمت کی کوششوں کے بارے میں دو طرح کی آراء پائی جاتی ہیں، جن سے اس بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ ایک رائے یہ ہے کہ پاکستان کی پالیسیوں میں کوئی جان نہیں ہے اور اس رائے کے حامل افراد کا ماننا ہے کہ آئندہ مہینوں کوئی نئی چیز سامنے نہیں آئے گی۔
دوسری رائے رکھنے والوں کو اس بات کی فکر ہے کہ افغانستان کی پاکستان کے ساتھ مفاہمت کی قیمت کیا ہوگی؟ کیا افغانستان کو طالبان کے لیے معاشرے میں جگہ بنانے کے عمل میں اپنے جمہوری آئینی عمل کو روکنا ہوگا ؟ کیا کابل حکومت کو اس کی قیمت ادا کرنے کے لیے اپنی آزاد خارجہ پالیسی کی قربانی دینا ہوگی؟ کیا افغانستان پاکستان کے قبضے والی مارکیٹ اور وسطی ایشیا کی طرف اسے راہ داری فراہم کرنے کا سبب بن جائے گا؟ داؤد مورادیان کا کہنا ہے کہ اشرف غنی کو ان تمام سوالات کا جواب دینا ہوگا۔