اسکاٹ لینڈ کے مستقبل کا فیصلہ، آج
18 ستمبر 2014تین سو سات سالوں سے برطانیہ کا حصہ رہنے کے بعد آج اسکاٹ لینڈ کے عوام یہ فیصلہ کر رہے ہیں کہ وہ آئندہ بھی برطانیہ کا حصہ ہی رہنا چاہتے ہیں یا انہیں ایک آزاد ریاست چاہیے۔ آج صبح عالمی وقت کے مطابق 6 بجے سے رائے شماری کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے، جو رات 9 بجے تک جاری رہے گا۔ اس ریفرنڈم کے لیے اسکاٹ لینڈ بھر میں دو ہزار چھ سو پولنگ اسٹیشنز قائم کیے گئے ہیں۔
اسکاٹ لینڈ کے مستقبل کے لیے رائے دہندگان کی تعداد قریب 4.2 ملین بنتی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ ممکنہ طور پر اس ریفرنڈم میں ٹرن آؤٹ80 فیصد تک ہو سکتا ہے۔
’’اس وقت ہمارے حکمران لندن میں بیٹھے ہیں، جن سے ہم خود کو بہت دور محسوس کرتے ہیں۔ ہمیں یہاں اسکاٹ لینڈ میں ایک حکومت کی ضرورت ہے، ہمیں گوناگوں مسائل کا سامنا ہے۔ یہاں ہر پانچ میں سے ایک بچہ غریب گھرانے میں پل رہا ہے۔ اسکاٹ لینڈ میں متعدد گھرانوں کو کھانے پینے کی اشیاء کے عطیات کی ضرورت ہے۔ اس لیے ہمیں اپنے وسائل کو خود بروئے کار لانا چاہیے اور ان پر اپنا کنٹرول رکھنا چاہیے۔‘‘ یہ کہنا ہے اسکاٹ لینڈ کی ایک نوجوان شہری راخل بلیئر کا جو ریفرنڈم مہم کی مینیجر ہے اور سماجی علوم کی طالبہ ہے۔ ان کے خیال میں اسکاٹ لینڈ تیل اور گیس کی دولت سے مالا مال ہے اور اگر اس کی اپنی حکومت ہو تو وہ اپنے قدرتی وسائل کا صحیح استعمال کرتے ہوئے بہت سے سماجی اور معاشی مسائل حل کر سکتی ہے۔
دوسری جانب اسکاٹ لینڈ میں ایک ایسا طبقہ بھی ہے جو برطانیہ کے ساتھ اپنی تاریخی وابستگی برقرار رکھنے پر زور دے رہا ہے۔ اس کے علاوہ اسکاٹ لینڈ کے بہت سے آجرین اور مختلف تجارتی کمپنیوں کے مالکان بھی اسکاٹ لینڈ کی آزادی سے خبردار کر رہے ہیں جب کہ وہاں کی لیبر یونین اس معاملے میں منقسم نظر آ رہی ہے۔
لندن کے رہائشی ایک اسکاٹش جلاوطن بن والکر کے مطابق اسکاٹ لینڈ کی آزادی یا اس کے برطانیہ کے ساتھ رہنے کے حق میں جو دو گروپ بن گئے ہیں ان دونوں کا موقف اور طرز عمل غیر متوازن اور مبالغے پر مبنی ہے۔ ان کے بقول،
’’جذبات اچھی اور لطیف چیز ہے۔ میں اسکاٹ باشندہ ہوں اور یہیں میں نے اسکول کی تعلیم حاصل کی ہے۔ تاہم اپنی عقل و ادراک سے میں یہ کہوں گا کہ برطانیہ سے علیحدگی کے ہم متحمل نہیں ہو سکتے۔ ہم اقتصادی طور پر مزید زبوں حالی کی طرف چلے جائیں گے۔ برطانیہ جیسی کامیاب ریاست کو خراب کرنے کا کیا فائدہ۔‘‘
بن والکر کا کہنا ہے کہ برطانیہ اگرچہ کوئی کامل ریاست نہیں ہے تاہم اسے بھی ویسے ہی مسائل کا سامنا ہے جیسے دوسرے مغربی جمہوری ممالک کو مثال کے طور پر جرمنی ، فرانس یا امریکا کو۔ آزادی اور قوم پرستی کا جنون ان مسائل کا حل نہیں ہے۔
مقامی اوپینین ریسرچ ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق 49 فیصد رائے دہندگان نے اسکاٹ لینڈ کی آزادی کے خلاف ووٹ دیا جب کہ 45 فیصد کا خیال تھا کہ اسکاٹ لینڈ آزاد ہونا چاہئے اور 6 فیصد نے کوئی رائے نہیں دی۔
دوسری جانب اسکاٹ لینڈ کے عوام کو برطانیہ کے ساتھ ہی رہنے کے لئے قائل کرنے پر برطانوی سیاسی قیادت ان دنوں اسکاٹ لینڈ میں موجود ہے۔ برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون بھی ایک ہفتے کے دوران دو مرتبہ اسکاٹ لینڈ کا دورہ کر چکے ہیں۔