1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسکاٹ لینڈ کا ریفرنڈم، دیگر برطانوی علاقوں کے لیے امید کی راہ

افسر اعوان17 ستمبر 2014

ایک آزاد اور خود مختار اسکاٹ لینڈ کے لیے 18 ستمبر کو ریفرنڈم ہو رہا ہے۔ برطانیہ سے علیحدگی کے نام پر اس ریفرنڈم کی وجہ سے برطانیہ کے دوسرے علاقوں میں بھی آزادی کے حوالے سے امیدیں بڑھ گئی ہیں۔

https://p.dw.com/p/1DDwk
تصویر: Reuters/Russell Cheyne

لندن میں قائم برطانوی پارلیمنٹ کی طرف سے اسکاٹ لینڈ کو اپنے ساتھ ملائے رکھنے کی آخری کوشش کے طور پر یہ پیشکش کی گئی ہے کہ اگر اسکاٹش عوام ریفرنڈم کے دوران برطانیہ کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو اس خطے کو اقتصادی فیصلہ سازی کے حوالے سے مزید خودمختاری دے دی جائے گی۔ یہ اعلان دراصل برطانوی عملداری میں قائم مانچسٹر، یارکشائر اور ویلز کے لیے بھی امید افزاء ثابت ہوا ہے۔

Schauspieler Alan Cumming
تصویر: picture-alliance/dpa/Stringer

34 رکنی اقتصادی تعاون اور ترقی کی تنظیم OECD میں سے برطانیہ، سرکاری مالیات کا سب سے زیادہ مرکزی نظام رکھنے والا ملک ہے۔ مقامی حکومتوں کے پاس مجموعی قومی پیداوار کا محض 1.7 فیصد ٹیکس لگانے کا اختیار ہے۔ جبکہ فرانس میں یہ اختیار پانچ فیصد جبکہ سویڈن میں 16 فیصد تک ہے۔

برطانیہ میں کئی برسوں کی اقتصادی کساد بازاری کے بعد اسکاٹ لینڈ کی علیحدگی کے حوالے سے ہونے والے ریفرنڈم نے دیگر علاقوں کے مقامی سیاستدانوں اور کاروباری افراد کو یہ موقع فراہم کیا ہے کہ وہ اپنے علاقوں کی اقتصادی خودمختاری بڑھانے کے لیے اپنی آواز بلند کر سکیں۔ یہ خودمختاری دراصل ان کے اپنے علاقوں میں تعمیر و ترقی کے لیے بہت اہم ہے۔

منگل 16 ستمبر کو شائع ہونے والے ایک سروے کے مطابق 48 فیصد کے قریب برطانوی شہری ملک کے مختلف شہروں اور علاقوں کو زیادہ فیصلہ سازی کے اختیارات دینے کے حق میں ہیں۔ یہ سروے ITV نیوز کے لیے ComRes نامی ادارے نے کیا ہے۔

یارکشائر فرسٹ؟

برطانیہ کی سب سے بڑی اس کاؤنٹی میں ’’یارکشائر فرسٹ‘‘ نامی تحریک کا آغاز رواں برس اگست میں کیا گیا ہے۔ اس تحریک کا مطالبہ ہے کہ یارکشائر کی علاقائی حکومت کو زیادہ اختیارات دیے جائیں۔

اس تحریک کا آغاز کرنے والے رہنما رچرڈ کارٹر کے مطابق یارکشائر کی آبادی اسکاٹ لینڈ جتنی ہے جبکہ اس کی معیشت کا حجم ویلز کے برابر ہے تاہم اس کاؤنٹی کے پاس علاقائی فیصلہ سازی کے حوالے سے اختیارات نہ ہونے کے برابر ہیں۔

48 سالہ بزنس ایڈوائزر رچرڈ کارٹر نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’ہمیں ایک ایسی ریاست کی ضرورت ہے جو سلطنت برطانیہ کے تمام حصوں کے لیے کام کرے۔ ہم نہیں چاہتے کہ اب سے 100 سال بعد یارکشائر میں بھی اسکاٹ لینڈ کی طرز پر بحث ومباحثہ ہو رہا ہوں یا یہ کہ لندن ہی ہمارے لیے فیصلہ سازی کر رہا ہو۔ اب بہت ہو چکا۔‘‘

Schottland Unabhängigkeitsbewegung Sezession No
تصویر: Reuters/Cathal McNaughton

دوسری طرف برطانیہ کی شمالی کاؤنٹی مانچسٹر کے عوام بھی ’گریٹر مانچسٹر‘ پر اتفاق کر رہے ہیں۔ برطانیہ کے ResPublica نامی تھنک ٹینک کے ڈائریکٹر فلپ بلونڈ کہتے ہیں کہ اس کاؤنٹی کی آباد شمالی آئرلینڈ سے بڑی جبکہ معیشت ویلز کے برابر ہے۔ انہی بنیادوں پر یہ کاؤنٹی اس بات کی مضبوط امیدوار ہے کہ اس کے فیصلہ سازی کے اختیارات میں اضافہ کیا جائے۔

بلونڈ نے پیر 15 ستمبر کو ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں تجویز دی گئی تھی کہ مانچسٹر کو انکم ٹیکس بڑھانے کے اختیارات دیے جائیں اور اس کے علاوہ حکومتی مالیاتی اخراجات پر بھی اس کاؤنٹی کا کنٹرول بڑھایا جائے۔

ادھر برطانوی علاقے ویلز جس کی آبادی 30 لاکھ سے کچھ زیادہ ہے، سے تعلق رکھنے والے ڈیفِڈ وِگلی سمجھتے ہیں کہ ان کی قوم پرست جماعت Plaid Cymru کو صرف اسی صورت میں تائید ملے گی جب اسکاٹ لینڈ کے ریفرنڈم میں برطانیہ سے علیحدگی کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔

ویلز کی اپنی پارلیمان ہے تاہم یہاں ملک کی اقتصادی صورتحال کے بارے میں عدم اعتماد پایا جاتا ہے۔ جس کی وجہ یہاں موجود بھاری صنعت اور کان کُنی کی صنعت کی بندش کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال بنی ہے۔ وگلی کے بقول ویلز کی 10 فیصد آبادی آزادی کے حق میں ہے۔