اسکائی ڈائیونگ کا نیا عالمی ریکارڈ
28 اکتوبر 2014زمین کے کرہ ہوائی کی اسٹراٹو اسفیئر نامی تہہ کے بلند مقام سے چھلانگ لگانے کا یہ مظاہرہ دراصل اس سطح کو سمجھنے کی کوششوں کا ایک حصہ ہے۔
انٹرنیٹ سرچ انجن اور ٹیکنالوجی جائنٹ گوگل کے ایکسپوریشن پراجیکٹ علم کے ساتھ بطور سینیئر نائب صدر وابستہ آؤسٹیس کی اس چھلانگ کا مقصد زمین کی سطح سے ایک لاکھ فٹ بلندی سے پچاس کلومیٹر کے درمیان واقعے اسٹراٹو اسفیئر تہہ کو انسان کے لیے مسخر کرنے اور اسے زیادہ بہتر انداز سے سمجھنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔
اس مقام تک پہنچنے کے لیے انہوں نے گرم ہوا کے غبارے کا سہارا لیا۔ اس انتہائی طاقتور غبارے نے انہیں قریب 41 کلومیٹر بلندی پر پہنچایا، جہاں سے آؤسٹیس نے چھلانگ لگائی اور تقریباﹰ ساڑھے چار منٹ تک فری فال یا سقوط آزادانہ سے زمین کی سطح کی جانب بڑھتے چلے گئے۔
اس پراجیکٹ کی ویب سائٹ کے مطابق اس بلند مقام تک پہنچنے کے لیے گرم ہوا کے غبارے کے ذریعے ایلن آؤسٹیس نے تقریباﹰ ڈھائی گھنٹے سفر کیا، جب کہ اس دوران وہ ایک ہزار فٹ فی منٹ کی رفتار سے بلندی کی جانب بڑھتے گئے۔ تاہم زمین کی سطح پر واپس پہنچنے میں انہیں چند منٹ ہی لگے۔ اس چھلانگ کے لیے انہوں نے نہ صرف اس خصوصی غبارے کا استعمال کیا بلکہ انہیں ایک خلائی سوٹ بھی پہننا پڑا۔ پیراگون اسپیس ڈیویلپمنٹ کارپوریشن کے مطابق انہوں نے نیومیکسیکو کے علاقے روزویل کی فضائی میں تقریباﹰ آدھا گھنٹا اسٹراٹو اسفیئر میں گزارا اور اس تہہ کی ماہیت اور نوعیت کا جائزہ لیا اور اس کے بعد زمین کی جانب چھلانگ لگا دی۔
اس پروجیکٹ کی ویب سائٹ کے مطابق، ’’انہوں نے ایک مختصر وقت، تقریباﹰ آدھاگھنٹا اسٹراٹو سفیئر میں گزارا اور پھر غبارے سے الگ ہو گئے۔ ایلن نے اس تیز رفتار فری فال میں بے وزنی جیسی حالت میں زمین کی طرف گرتے چلے گئے اور 90 سیکنڈز میں انہوں نے آواز سے زائد رفتار حاصل کی۔‘‘
اس سے قبل سن 2012ء میں آسٹریا کے اسکائی ڈائیور فیلِکس باؤم گارٹنر نے ایک لاکھ اٹھائیس ہزار فٹ یا قریب 39 کلومیٹر کی بلندی سے چھلانگ لگا کر عالمی ریکارڈ قائم کیا تھا۔
بتایا گیا ہے کہ آؤسٹیس کی یہ فری فال حرکت تقریباﹰ پانچ منٹ تک جاری رہی اور جب وہ 18 ہزار فٹ کی بلندی پر آگئے تھے انہوں نے پیراشوٹ کھول دیا، جس کے بعد وہ بآسانی زمین کی سطح پر پہنچے۔ بتایا گیا ہے کہ وہ لانچ سائٹ سے تقریباﹰ 71 کلومیٹر دور اترے اور پھر دوبارہ لانچ سائٹ پر پہنچے۔ غبارے کے ذریعے اڑنے، چھلانگ لگانے اور دوبارہ اپنے ابتدائی مقام پر پہنچنے میں چار گھنٹوں کا عرصہ لگا۔
امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے ایلن آؤسٹیس کے حوالے سے لکھا ہے، ’’یہ ایک نہایت حیرت انگیز تجربہ تھا۔ یہ سب انتہائی خوبصورت تھا۔ اس بلند مقام پر ایک طرف خلا کی تاریکی دیکھی جا سکتی ہے اور دوسری جانب زمینی کرہ ہوائی کی تہیں۔ اس سے قبل میں نے یہ سب کبھی نہیں دیکھا تھا۔‘‘
نیویارک ٹائمز کے مطابق آؤسٹیس نے سپرسانک یا آواز کی حد رفتار کو توڑا تو زمین سے مشاہدہ کرنے والے افراد کو سانک بوم یا صوتی جھماکا سننے کو ملا۔
پیراگون پیراگون کے مطابق اس پراجیکٹ نے اسٹراٹوسفیر کے مطالعے کے لیے کئی طرف کی ایپلیکشنز بنا رکھے ہیں، جس میں کسی خلائی جہاز کے زمینی کرہ چھوڑنے یا آواز کی رفتار سے تیز سفر کرتے ہوئے جسم کی حرکات و سکنات، انتہائی بلندی پر اڑنے والے جہازوں کے لیے انسانی لباس کی تیاری اور خلائی چھلانگ کے حوالے سے ریکارڈ بنانے جیسے علوم شامل ہیں۔
اس پراجیکٹ کے مطابق خصوصی آلات کے بغیر انسان اتنی بلندی پر زندہ نہیں رہ سکتا کیوں کہ ایک طرف تو اس کا عمل تنفس کام کرنا چھوڑ دیتا ہے اور دوسری جانب اس خلا میں ہوا کا دباؤ ختم ہو جانے کی وجہ سے جسم میں موجود خون اور دیگر مائعات ابلنے لگتے ہیں۔