1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسلامک اسٹیٹ کے خلاف جلد عملی قدم کی ضرورت

Bernd Riegert / امجد علی16 ستمبر 2014

ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار بیرنڈ ریگرٹ کے مطابق پیر پندرہ ستمبر کو پیرس میں دہشت گردی کے انسداد کے لیے ہونے والی کانفرنس نئی معلومات سامنے لانے میں ناکام رہی ہے اور یہ کہ باتیں بہت ہو چکیں، اب ضرورت عملی اقدامات کی ہے۔

https://p.dw.com/p/1DDPV
پیرس منعقدہ کانفرنس میں شریک چھبیس ملکوں کے نمائندوں میں صرف ایک صدر شامل تھے، عراقی صدر فواد معصوم۔ اس تصویر میں فرانس کے صدر اولانڈ اُن کا استقبال کر رہے ہبں
پیرس منعقدہ کانفرنس میں شریک چھبیس ملکوں کے نمائندوں میں صرف ایک صدر شامل تھے، عراقی صدر فواد معصوم۔ اس تصویر میں فرانس کے صدر اولانڈ اُن کا استقبال کر رہے ہبںتصویر: Reuters/John Schults

وہ کہتے ہیں کہ اس تنظیم کے وجود میں آنے کے اسباب پر تحقیق بعد میں بھی ہو سکتی ہے۔ بیرنڈ ریگرٹ اپنے تبصرے میں لکھتے ہیں:

’’فرانسیسی صدر فرانسوا اولانڈ کی دعوت پر دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ (آئی ایس) کے خلاف بلائی گئی کانفرنس میں چھبیس ملکوں نے اپنے نمائندے بھیجے البتہ صرف ایک صدر نے اس میں شرکت کی یعنی بحران زدہ ملک عراق کے فواد معصوم نے۔ دیگر شرکاء وزرائے خارجہ تھے۔ چند ہفتے قبل اولانڈ نے ایک بڑی سربراہ کانفرنس کا اعلان کیا تھا، جسے بہرحال عملی شکل نہ دی جا سکی۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ اس تنظیم کے خلاف اتحاد پہلے سے موجود ہے۔

شام سے واپس آنے والے ایک شخص کے خلاف فرینکفرٹ (جرمنی) میں مقدمے کی کارروائی ہو رہی ہے
شام سے واپس آنے والے ایک شخص کے خلاف فرینکفرٹ (جرمنی) میں مقدمے کی کارروائی ہو رہی ہےتصویر: Reuters/Ralph Orlowski

دس روز پہلے ہی ویلز میں امریکی صدر باراک اوباما نے مغربی دنیا میں اپنے حلیف ساتھیوں سے عہد لے لیا تھا۔ اُس موقع پر اولانڈ بھی موجود تھے لیکن چونکہ وہ داخلی طور پر سیاسی دباؤ کا شکار ہیں، اس لیے وہ اس طرح کا اجتماع منعقد کر کے اپنی ساکھ بہتر بنانا چاہتے تھے۔

اس سے پہلے امریکی وزیر خارجہ جان کیری بھی خطّے کا دورہ کرتے ہوئے دَس عرب ملکوں کو آئی ایس کے خلاف ایک ڈھیلے ڈھالے اتحاد کا حصہ بنا چکے ہیں۔ پیرس کانفرنس میں برطانیہ اور فرانس نے اس بات کا عندیہ دیا کہ آئی ایس کے خلاف امریکی فضائی حملوں میں وہ بھی شریک ہو سکتے ہیں۔ عرب ملکوں نے کہا کہ وہ آئی ایس کے اُن ذرائع پر پابندی لگائیں گے، جہاں سے اس تنظیم کو پیسہ آتا ہے حالانکہ یہ کام اُنہیں بہت پہلے کر لینا چاہیے تھا۔ درحقیقت اسلامک اسٹیٹ کے بے رحم جنگجوؤں کے اخراجات کا ایک بڑا حصہ سعودی عرب، قطر، کویت اور متحدہ عرب امارات سے ملنے والے عطیات سے پورا ہوتا ہے۔ اسلامک اسٹیٹ کے خلاف عراقی کردوں کو ہتھیار فراہم کرنے و الے جرمنی جیسے ملکوں کو اس تنظیم کے تیل کے کاروبار پر بھی قدغنیں لگانی چاہییں۔

ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار بیرنڈ ریگرٹ
ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار بیرنڈ ریگرٹ

سی آئی اے کے اندازوں کے مطابق آئی ایس کے جنگجوؤں کی تعداد تیس ہزار تک ہے، جو صحراؤں میں نہیں بلکہ قصبوں اور شہروں میں بھی سرگرمِ عمل ہیں۔ صرف فضائی حملوں کے ذریعے اس تنظیم کو شکست نہیں دی جا سکتی۔ فضائی حملوں سے ویسے بھی بڑی تعداد میں عام شہری بھی ہلاک ہو سکتے ہیں۔ اگر آئی ایس کو واقعی ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنا ہے تو اس کے لیے زمینی دستوں کی ضرورت پڑے گی لیکن سوال یہ ہے کہ آیا امریکا اور اُس کے اتحادی اس کے لیے تیار ہیں۔ پیرس کانفرنس کے مشترکہ اعلامیے میں محض یہ کہنے پر اکتفا کیا گیا کہ مقصد ان دہشت گردوں کو ’باہر نکالنا‘ ہے۔ سوال یہ ہے کہ باہر نکال کر اُنہیں کہاں بھیجا جائے گا، شام، ترکی یا لبنان؟ فضائی حملے غالباً صرف اتنا کر سکتے ہیں کہ اس تنظیم کے دائرہٴ اثر کو پھیلنے سے روک سکیں، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔

آئی ایس کے خلاف کارروائی کے لیے اقوام متحدہ کی تائید و حمایت کے حصول کی کوشش کا مطلب یہ ہو گا کہ چین اور روس کو بھی قائل کرنا پڑے گا۔ یوکرائن کے بحران کی وجہ سے روس کو قائل کرنا مشکل نظر آتا ہے۔ گویا امریکا اقوام متحدہ یا روس کی حمایت کے بغیر ہی شام کے اُن علاقوں پر بمباری شروع کر دے گا، جہاں آئی ایس کے جنگجو پیچھے ہَٹ کر پناہ لے سکتے ہیں۔ دیکھا جائے تو آئی ایس کی دہشت گردی کا مقابلہ مغربی دفاعی اتحاد نیٹو، یورپ میں سلامتی اور تعاون کی تنظیم او ایس سی ای اور یورپی یونین کو مل کر کرنا چاہیے کیونکہ اس تنظیم کی کارروائیاں بڑی تیزی سے عراق اور شام کے بعد یورپ اور پھر امریکا کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہیں۔ خفیہ اداروں کے اندازوں کے مطابق آئی ایس کے دو ہزار تربیت یافتہ کارکن ابھی سے یورپ میں موجود ہیں۔ اس ہولناک خطرے کو بہر صورت ختم کیا جانا چاہیے اور اب تک جن عملی اقدامات کا اعلان کیا گیا ہے، وہ اس خطرے پر قابو پانے کے لیے ناکافی دکھائی دیتے ہیں۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید