1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسلامک اسٹیٹ کی سرکوبی میں تعاون : کچھ لو کچھ دو کی ایرانی شرط

عابد حسین21 ستمبر 2014

ایران کے ایک اعلیٰ اہلکار نے نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ اسلامک اسٹیٹ تنظیم کی کارروائیوں کو روکنے کے لیے امریکی کوششوں میں ایران شامل ہو سکتا ہے بشرطیکہ جوہری مذاکرات میں مغرب اور امریکا لچک کا مظاہرہ کریں۔

https://p.dw.com/p/1DGSY
جان کیری اور جواد ظریفتصویر: Getty Images

اعلیٰ ایرانی اہلکار نے اپنا نام مخفی رکھنے کی شرط پر کہا کہ نیو یارک میں جاری مذاکرات کے دوران مغرب اور امریکا کی جانب سے یورینیئم افزودگی پروگرام میں اگر لچکدار رویہ پیدا ہوتا ہے تو تہران حکومت انتہا پسند تنظیم اسلامک اسٹیٹ کے خلاف امریکی کوششوں کا حصہ بن سکتی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ حال ہی میں امریکی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ ایران جہادی گروپ اسلامک اسٹیٹ کے خلاف اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔ اِس سے قبل اسلامک اسٹیٹ سے نمٹنے کے طریقہ کار کے بارے میں پیرس کانفرنس میں ایران کی شرکت پر امریکا نے اعتراض کیا تھا۔

Wien Österreich Außenminister Javad Zarif Iran John Kerry USA 14.7.14
ایرانی جوہری پروگرام پر ویانا میں ہونے والا مذاکراتی عملتصویر: JIM BOURG/AFP/Getty Images

سنی انتہا پسند گروپ اسلامک اسٹیٹ کے بارے میں ایران کی جانب سے متفرق اشارے سامنے آئے ہیں۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کا کہنا ہے کہ انہوں نے اُن کوششوں پر لکیر پھیر دی ہے جن کے تحت ایران ممکنہ طور پر امریکا کے ساتھ مل کر اسلامک اسٹیٹ کو شکست دینے کی پلاننگ کا حصہ بنے۔ امریکا نے اس کی تردید کی ہے کہ وہ تہران کے ساتھ مل کر اسلامک اسٹیٹ کے خلاف کسی کارروائی کی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔ یہ بھی اہم ہے کہ واشنگٹن اور تہران دونوں ہی کسی بھی فوجی اشتراک کو خارج از امکان قرار دے چکے ہیں۔ لیکن بعض نجی ملاقاتوں میں ایران کے حکام نے اسلامک اسٹیٹ کے خلاف ایرانی تعاون کا امکان ظاہر کیا ہے۔

ایک اور اعلیٰ ایرانی اہلکار نے اپنا نام مخفی رکھتے ہوئے کہا کہ ایران اپنے خطے کا ایک انتہائی بااثر ملک ہے اور اسلامک اسٹیٹ کے خلاف وہ مؤثر کردار ادا کرنے کی حیثیت رکھتا ہے لیکن تعاون ایک دوطرفہ راستہ ہے اور کچھ دو اور کچھ لو کا اصول یہاں بھی لاگو ہے۔ ایرانی اہلکار کے مطابق اسلامک اسٹیٹ ایک علاقائی خطرہ نہیں بلکہ یہ عالمی سلامتی کے لیے خطرہ ہے جبکہ ایرانی جوہری پروگرام قطعاً عالمی سکیورٹی کے خطرے کا باعث نہیں کیونکہ یہ پُرامن مقاصد کے لیے ہے۔ تہران حکومت مغرب اور امریکی خدشات کو بارہا مسترد کر چکی ہے کہ اُس کا جوہری پروگرام ہتھیارسازی کے لیے وقف ہے۔

Kerry Iran Atomgespräche 15.07.2014 Wien
امریکی وزیر خارجہ جان کیریتصویر: Reuters

ایسے ہی کلمات ایک اور اعلیٰ ایرانی اہلکار کی جانب سے بھی سامنے آئے ہیں لیکن دونوں نے اس پر زور دیا کہ مغربی اقوام کو ایرانی جوہری پروگرام کے حوالے سے لچکدار رویہ اپنانا ہو گا۔ ایک دوسرے ایرانی اہلکار کے خیال میں دونوں جانب سے اپنے اپنے مؤقف میں لچک پیدا کرنے سے ڈیل ممکن ہو سکتی ہے۔ ایران اور مغربی طاقتوں کے درمیان جوہری پروگرام پر مذاکراتی عمل جاری ہے۔ اِس کا تازہ راؤنڈ آج کل نیویارک میں جاری ہے۔ ایک طویل المدتی ڈیل کے حصول کی کوششیں جاری ہیں اور فریقین یہ ڈیل رواں برس چوبیس نومبر تک طے کرنا چاہتے ہیں۔

مغربی سفارتکاروں کا اسلامک اسٹیٹ کے حوالے سے ایرانی حکام کے مؤقف کے تناظر میں کہنا ہے کہ تہران حکومت کی جانب سے نیویارک میں جاری مذاکرات میں یہ نکتہ اٹھایا نہیں گیا ہے۔ مغربی سفارتکاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایٹمی پروگرام کے مذاکرات کے دوران اسلامک اسٹیٹ کے حوالے سے گفتگو خاصی مشکل ہے کیونکہ یہ ایک دوسرا موضوع ہے جبکہ امریکا اور اُس کے مغربی اتحادی مذاکرت میں بات چیت کو ایٹمی پروگرام پر ہی فوکس رکھنا چاہتے ہیں۔ سفارتکاروں کے خیال میں نیویارک میں جاری مذاکراتی عمل کے دوران بھی ایرانی جوہری پروگرام پر کوئی ڈیل سامنے نہیں آ سکتی کیونکہ کچھ معاملات پر فریقین اپنے اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید