1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسلامک اسٹیٹ کو سرمایہ کہاں سے ملتا ہے؟

عدنان اسحاق26 فروری 2015

دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ کے پاس وسائل کی بھرمار ہے۔ وہ مختلف ذرائع استعمال کرتے ہوئے اپنی ضروریات پوری کرتی ہے۔ عالمی برادری آئی ایس کے خلاف طاقت استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے سرمائے کے ماخذ بھی ختم کرنا چاہتی ہے۔

https://p.dw.com/p/1EiBz
تصویر: picture-alliance/Zuma Press/M. Dairieh

اسلامک اسٹیٹ کو اپنی ضروریات پوری کرنے کے حوالے سے کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہیں ہے۔گاہے بگاہے پوری دنیا سے نوجوان اس تنظیم میں شامل ہو رہے ہیں اور اب ان میں خواتین کی تعداد بھی نمایاں ہوتی جا رہی ہے۔ بہت سے نوجوان تو مذہبی تعلیمات سے متاثر ہو کر جبکہ کچھ اپنے ’مسلمان بھائیوں کی حوصلہ افزائی‘ کے لیے آئی ایس میں شامل ہو رہے ہیں۔ تاہم کچھ افراد ایسے بھی ہیں، جو تشدد پسندی اور اپنی مجرمانہ خواہشات کی تسکین کے لیے اسلامک اسٹیٹ کا حصہ بن رہے ہیں۔

العربی الجدید نامی اخبار لکھتا ہے کہ آئی ایس کے تمام دہشت گردوں کو لڑنے کے عوض ہر ماہ پانچ سو سے چھ سو ڈالر تک دیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس دہشت گرد تنظیم نے اپنے فلاحی منصوبے بھی شروع کر رکھے ہیں، جن کے تحت ہلاک ہونے والے دہشت گردوں کے لواحقین کی نگہداشت اور زخمیوں کے علاج پر رقم خرچ کی جاتی ہے۔ اخبار مزید لکھتا ہے کہ سال 2015ء کے دوران آئی ایس نے اس مقصد کے لیے دو ارب امریکی ڈالر مختص کیے ہیں اور یہ رقم اس سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔

Türkische Panzer Syrien
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. Ozbilibi

گزشتہ برس موسم خزاں تک آئی ایس عراق اور شام سے حاصل کیا گیا تیل فروخت کرتے ہوئے اپنی مالی ضروریات پوری کرتی رہی ہے۔ امریکی سربراہی میں اتحادی افواج کی فضائی کارروائیوں کے بعد سے تیل کی فروخت کافی حد تک کم ہو گئی ہے۔ اس دوران آئی ایس نے مزید ذرائع تلاش کر لیے ہیں اور خیال کیا جا رہا ہے کہ خلیجی ممالک سے انہیں امداد مل رہی ہے۔ تاہم اس بارے میں کوئی ثبوت پیش نہیں کیا جا سکتا۔

اس کے علاوہ کچھ ایسے مخیر حضرات بھی ہیں، جو اپنی شدت پسندانہ سوچ کی وجہ سے نجی طور پر اس تنظیم کے ہاتھ گرم کر رہے ہیں۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ اس خوف سے کہ کہیں یہ دہشت گرد تنظیم جزیرہ نما عرب میں اپنے قدم نہ جما لے، کئی خلیجی ممالک آئی ایس کو سرمایہ منتقل کر تے ہیں۔

آئی ایس مجرمانہ سرگرمیوں کے ذریعے بھی رقوم اکٹھی کرتی ہے۔ ان میں سگریٹ، ادویات اور موبائل ٹیلیفونز کے علاوہ شامی اور عراقی نوادرات کی غیر قانونی تجارت بھی شامل ہے۔ آئی ایس ان غیر ملکی جنگجوؤں کے پاسپورٹ بھی کئی کئی سو ڈالر میں فروخت کرتی ہے، جو اس کی طرف سے لڑ رہے ہیں۔ ساتھ ہی انسانوں (خاص طور پر خواتین) کی تجارت اور اغوا برائے تاوان بھی ان تنظیم کے مالی ذرائع میں شامل ہیں۔

Syrien/Irak IS-Kämpfer
تصویر: picture-alliance/Albaraka News/Handout

لُوئزے شیلی نامی ایک خاتون ماہر کہتی ہیں کہ پولیس اور فوج کا استعمال کرتے ہوئے آئی ایس کی طرف سے تجارت پر قابو پانا ممکن نہیں ہے۔ ’’آئی ایس کے غیر قانونی طریقوں کو شکست دینے کے لیے ایک قانونی کاروبار کی ضرورت ہے۔‘‘ وہ مزید کہتی ہیں کہ اس سلسلے امریکا اور اس کے اتحادی ممالک کو عراق کی اقتصادی صورتحال کو بہتر کرنے کے لیے بغداد حکومت کی مدد کرنی چاہیے۔ اس طرح یہ بہتری پرکشش ہو گی اور مسابقت کا رجحان بڑھے گا۔ ’’جب بھی کسی منڈی میں پرکشش امکانات کی کمی ہو گی، تو صارف کسی دوسری مارکیٹ سے اپنی ضرورت کو پورا کرنے کی کوشش کرے گا۔‘‘ شیلی کے بقول آئی ایس کے تجارتی طریقہ کار کو سمجھنے کے لیے مقامی نظام کو درست انداز میں سمجھنا ضروری ہے۔