1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’اسلامک اسٹیٹ نے میرے بیٹے کو کیسے شکنجے میں جکڑا‘

کشور مصطفیٰ21 مئی 2015

ہالینڈ کی خفیہ ایجنسی کے مطابق قریب 180 ولندیزی باشندے گزشتہ برس اسلامک اسٹیٹ کے جہاد میں شامل ہونے کی غرض سے ملک چھوڑ کر شام چلے گئے، ان ہی میں سے ایک بیس سالہ ریدا نیدالھا بھی ہے۔

https://p.dw.com/p/1FTsF
تصویر: picture-allianceAP Photo

ریدا نیدالھا ہالینڈ کی ایک تاریخی شہر لائیڈن میں پیدا ہوا اور وہیں اُس کی پرورش ہوئی ہے۔ اب وہ 20 سال کا ہو چُکا ہے۔ وہ ایک نہایت منچلا نوجوان ہوا کرتا تھا۔ لڑکیوں کا شیدائی اور ڈسکو وغیرہ کا شوقین۔ اچانک اُسے ایک زہریلے کاکٹیل کی مانند ایک آن لائن پروپگینڈا نے انتہا پسندی کے نظریات سے محصور کر دیا۔ Sharia4Belgim نامی بیلجیم کے ایک ادارے سے ریدا نے رابطہ قائم کیا۔

دریں اثناء ریدا نیدالھا نے پابندی سے ایک مسجد جانا شروع کر دیا، داڑھی رکھ لی اور کسی خفیہ سے مقام پر ہونے والے مذہبی اجتماعات اور وعظ وغیرہ میں حصہ لینے لگا۔ وہاں اُس کی اس طرح برین واشننگ کی گئی کہ دو ماہ کے اندر اندر جنونی سا ہو گیا۔

ریدا کے والد 49 سالہ مراکشی ورکر ہیں اور ہالینڈ میں ہی ایک سیمنٹ فیکٹری میں کام کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے بیٹے کی تربیت ہر گز ایسے ماحول میں نہیں کی تھی کہ وہ انتہا پسند بن سکتا تھا۔ یہاں تک کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو ایک مسلمان کی طرح نہیں پروان چڑھایا جس پر وہ اب نادم ہیں۔ نہایت پشیمان لہجے میں وہ کہتے ہیں،" اگر ریدا نے معتدل اسلام کو جانا ہوتا اور اس کی تعلیم حاصل کر لی ہوتی تو شاید انتہا پسند نظریات اُس کے ذہن کو اثر انداز نہیں کر پاتے اور وہ شام جانے پر آمادہ نہ ہوا ہوتا"۔

Belgien Antwerpen Prozess Sharia4Belgium - Sicherheitsmaßnahmen
بلجیم میں دہشت گرد گروپ Sharia4Belgim کے مبینہ اراکین کے خلاف کارروائیتصویر: picture-alliance/AP Photo/Virginia Mayo

ریدا کا شمار اب ہالینڈ اور بیلجیئم جیسے سیکولر معاشروں سے تعلق رکھنے والے ناخوش اور اضطراب کے شکار نوجوانوں میں ہو رہا ہے جو مغربی اقدار سے مُنہ موڑ کر انتہا پسند جہادی تنظیم اسلامک اسٹیٹ میں شامل ہو گئے ہیں اور انہوں نے شام جا کر وہاں کی جنگ میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔

ریدا کے والد کے بقول،" 100 فیصد یقین کے ساتھ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ریدا اسلامک اسٹیٹ میں شامل ہوچُکا ہے۔ یہ وہ کُھلا راز ہے جسے سب دیکھ اور سمجھ رہے ہیں۔ وہ فیس بُک پر ہے، وہ کبھی بھی اپنا چہرہ نہیں چھپاتا" ۔ ریدا کے والد کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو سمجھانے کی کوشش کی۔ جب بھی وہ ریدا سے کہتے کہ وہ یہ سب کچھ کیوں کر رہا ہے تو اُس کا جواب یہ ہوتا،" پاپا آپ میری بالکل فکر نہ کریں۔ یہ میری زندگی ہے، میں جیسے چاہوں اسے گزاروں گا" ۔

ریدا کے والد کے لیے اس سوال کا جواب دینا تو مشکل ہے کہ آخر اُن کا بیٹا انتہا پسندی کی طرف کیوں چل پڑا؟ تاہم وہ کہتے ہیں، "جہادیوں کو بھرتی کرنے والوں نے یہ دیکھ لیا کہ میرا بیٹا ان کے لیے ایک آسان شکار ہو سکتا ہے۔ ریدا ایک ٹوٹے ہوئے گھرانے سے تعلق رکھنے والا نوجوان ہے جو اپنی زندگی سے جدوجہد کر رہا ہے اور اُسے کسی نئے سمت کی تلاش ہے۔ جہادی تنظیموں کے اراکین اس سلسلے میں پیشہ ورانہ مہارت رکھتے ہیں۔ وہ اپنے لیے آسان ترین شکار تلاش کر لیتے ہیں"۔

Belgien Antwerpen Prozess Sharia4Belgium
بلجیم کی ایک عدالت میں اس دہشت گرد ادارے سے منسلک درجنوں افراد پر مقدمہ چلا گیاتصویر: picture-alliance/AP Photo/Virginia Mayo

ریدا کے والد محمد نیدالھا کو ولندیزی حکومت سے سخت شکایت ہے کیونکہ اُن کے خیال میں اس حکومت ریدا کو شام کی جنگ میں شریک ہونے سے باز رکھنے کے لیے کافی اقدامات نہیں کر رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا،" ڈچ حکومت ریدا کی گرفتاری کا انٹرنیشنل وارنٹ جاری کر سکتی تھی، اُس وقت جب ریدا ترکی میں سرحد پار کر کے شام جانے کا انتظار کر رہا تھا"۔ محمد نیدالھا نے کہا کہ اُن کے بیٹے نے انہیں بتایا ہے کہ شام پہنچنے سے پہلے اُسے ترک حکام نے دو بار گرفتار کیا تھا۔ ریدا کو شام گئے ہوئے تقریباً ایک سال کا عرصہ ہو رہا ہے۔ اُس کی ماں، محمد نیدالھا کی سابقہ بیوی اپنے احساسات کا اظہار بیان میں نہیں کرسکتی اُس کے لیے یہ ایک ناقابل تلافی نقصان ہے۔ ریدا کے باپ محمد نیدالھا کو بھی یقین ہے کہ وہ اب کبھی بھی اپنے بیٹے کو رندہ سلامت نہیں دیکھ سکے گا تاہم اُسے اس بات کی پریشانی ضرور ہے کہ بلفرض ریدا گھر لوٹ آیا تو وہ کس طرح کی شخصیت کا ملک بن چُکا ہوگا۔

دریں اثناء ہالینڈ کی اینٹیلیجنس ایجنسی نے اپنے اندازے میں کہا ہے کہ 2014 ء میں 180 ڈچ نوجوان ملک چھوڑ کر شام جاکر وہاں کی جنگ میں شریک ہو چُکے ہیں۔