1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’اسلامک اسٹیٹ‘ شام کے نصف حصے پر قابض

امتیاز احمد21 مئی 2015

تاریخی اور قدیم شہر پالمیرا پر قبضے کے بعد ’اسلامک اسٹیٹ‘ شورش زدہ ملک شام کے نصف حصے پر قابض ہو گئی ہے۔ خدشہ ہے کہ اس شہر میں بھی عالمی ورثے کے انمول نوادرات تباہ کر دیے جائیں گے۔

https://p.dw.com/p/1FTbO
Syrien Kämpfe um Palmyra
تصویر: picture-alliance/dpa

برطانیہ میں مقیم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے کہا ہے کہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ ( داعش) جنگ زدہ ملک شام کے نصف حصے پر قابض ہو گئی ہے۔ آئی ایس کا گزشتہ شب قدیم شامی شہر پالمیرا ( تدمر) پر قبضہ اس جہادی گروپ کی پیش قدمی کو روکنے کے لیے کی جانے والی کوششوں کو لگنے والا تازہ ترین دھچکا ہے۔ اس سے قبل اس تنظیم نے عراق کے ایک اہم شہر رمادی پر قبضہ کر لیا تھا۔

آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے سربراہ رامی عبدالرحمان کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ آثار قدیمہ کے مقامات کے ساتھ ساتھ آئی ایس کے جنگجو تدمر ( پالمیرا) کے تمام حصوں پر قابض ہو گئے ہیں۔‘‘

آئی ایس کے عسکریت پسندوں نے بھی اس اسٹریٹیجک شہر کا مکمل کنٹرول حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ اس شہر کی جغرافیائی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ اس کے مغربی مرکزی راستے دارالحکومت دمشق اور حمص شہر کی طرف جاتے ہیں جبکہ مشرقی ہائی وے عراق سے ملتی ہے۔ اطلاعات کے مطابق اسد حکومت کے فوجی گزشتہ رات شہر اور اس کے مضافات سے تمام پوسٹیں خالی کر گئے تھے۔ ان میں آرمی انٹیلی جنس چوکی، ملٹری ایئر پورٹ اور وہ جیل بھی شامل ہے، جہاں آئی ایس کے عسکریت پسندوں کو قید کیا گیا تھا۔ پالیمرا شہر کے ایک رہائشی محمد حسن الحمصی کا کہنا تھا، ’’سرکاری دستے مزاحمت کیے بغیر ہی اپنی پوسٹیں خالی کر کے چلے گئے ہیں۔‘‘

Bildergalerie Palmyra
تصویر: Getty Images/AFP/J. Eid

گزشتہ روز پالمیرا کے شمالی حصے پر قبضے کے بعد شام میں محکمہ ء آثار قدیمہ کے سربراہ مامون عبدالکریم کا کہنا تھا، ’’صورتحال بہت ہی بُری ہے۔ اگر آئی ایس کے صرف پانچ رکن آثار قدیمہ تک پہنچ جاتے ہیں تو وہ وہاں موجود ہر چیز تباہ کر سکتے ہیں۔‘‘ انہوں نے بین الاقوامی برادری سے اپیل کی تھی کہ ان کی مدد کی جائے۔

پالمیرا کی تاریخی اہمیت

دوہزار سال پرانا قدیم نخلستانی شہر پالمیرا، جسے عربی زبان میں تدمُر کہتے ہیں، اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے میں شامل ہے۔ دو ہزار سال پرانے معبد بِل کے کھنڈرات بھی اسی صحرائی شہر میں پائے جاتے ہیں جبکہ ماضی میں شاہراہ ریشم کے قافلے بھی اسی مقام پر پڑاؤ ڈالتے تھے۔ دو ہزار سال پہلے یہ چھوٹا سا قصبہ ثقافتی اور تجارتی مرکز بھی تھا جبکہ ماضی کے متعدد شرفاء کے مقبرے بھی اسی شہر میں ملتے ہیں۔

اس شہر کے تاریخی مقامات ماضی کے فن تعمیر کا اعلیٰ نمونہ ہیں جبکہ یہ عمارتیں یونای ، رومن، فارس اور مقامی آرٹ کا مرکب ہیں۔