1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسلامک اسٹيٹ کے خلاف کارروائی، خامنہ ای نے تعاون مسترد کر ديا

عاصم سليم16 ستمبر 2014

ايران نے شام اور عراق ميں سرگرم جہادی تنظيم اسلامک اسٹيٹ کے خلاف کارروائی ميں مدد کرنے کی امريکی درخواست کو مسترد کر ديا ہے۔ تہران کا موقف ہے کہ اسلامک اسٹيٹ کے خلاف عالمی اتحاد کا اصل مقصد شام ميں اقتدار کی منتقلی ہے۔

https://p.dw.com/p/1DCjs
تصویر: khamenei.ir

نيوز ايجنسی اے ايف پی کے مطابق تہران حکومت، جو اسلامک اسٹيٹ کی پيش قدمی سے نمٹنے کے ليے بغداد اور دمشق حکومتوں کی مدد کرتی آئی ہے، کا ايسا ماننا ہے کہ اس عالمی اتحاد کے چند ارکان شام ميں صدر بشار الاسد کا تختہ الٹنے کے ليے اس جہادی تنظيم کی مالی معاونت کر چکے ہيں۔

Paris Konferenz Gruppenfoto 15.09.2014
پيرس ميں منعقدہ کانفرنس کے شرکاء کا ايک گروپ فوٹوتصویر: Michel Euler/Reuters

ايران کے سپريم ليڈر آيت اللہ خامنہ ای نے گزشتہ روز اس بارے ميں بات چيت کرتے ہوئے کہا کہ شروع ہی سے عراق ميں تعينات اپنے سفير کے ذريعے امريکا يہ درخواست کرتا آيا ہے کہ ايران داعش کے خلاف مدد فراہم کرے۔ خامنہ ای نے مزيد کہا، ’’ميں نے منع اس ليے کيا کيونکہ ان کے ہاتھ صاف نہيں ہيں۔‘‘ ايرانی سپريم ليڈر کے بقول امريکی وزير خارجہ جان کيری نے ذاتی طور پر اپنے ايرانی ہم منصب محمد جواد ظريف سے مدد کی درخواست کی، جو ظريف نے مسترد کر دی۔

اپنے اس بيان ميں ايرانی رہنما نے واشنگٹن پر الزام عائد کيا کہ وہ ’عراق اور شام ميں ايسا جواز پيدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ پاکستان کی طرح ان ممالک ميں بھی بلا اجازت بمباری کر سکے۔‘

دريں اثناء اسلامک اسٹيٹ کے خلاف کارروائی کے حوالے سے معاملات طے کرنے کے ليے فرانسيسی دارالحکومت پيرس ميں پير پندرہ ستمبر کے روز ہونے والی بين الاقوامی کانفرنس کے اختتام پر امريکا کی طرف سے يہ بيان جاری کيا گيا ہے کہ وہ جہادی تنظيم اسلامک اسٹيٹ کے خلاف عراق ميں کارروائی کے ليے ايران کے ساتھ عسکری تعاون کے خلاف ہے ليکن بات چيت کے ليے اب بھی دروازے کھلے ہیں۔

ايران کے سپریم لیڈر آيت اللہ خامنہ ای کی طرف سے جاری کردہ بيان کے کچھ ہی دير بعد پيرس ميں رپورٹروں سے بات چيت کرتے ہوئے امريکی وزير خارجہ کيری نے کہا کہ امريکا اس معاملے پر ايران کے ساتھ کام نہيں کرے گا، تاہم بات چيت کے ليے تيار ہے۔

يہ امر اہم ہے کہ واشنگٹن حکومت نے عراق ميں اسلامک اسٹیٹ کی پيش قدمی روکنے کے لیے تمام علاقائی رياستوں سے تعاون کی اپيل کی تھی، تاہم وزير خارجہ کيری نے پچھلے ہی ہفتے تہران کے ساتھ تعاون کو خارج از امکان قرار دے ديا تھا۔ تہران حکومت کو دمشق حکومت کے سب سے اہم اتحادی اور حامی کے طور پر ديکھا جاتا ہے۔

ادھر پيرس ميں منعقدہ کانفرنس ميں اعلیٰ سفارت کاروں نے اسلامک اسٹيٹ کے جنگجوؤں کے خلاف لڑائی ميں عراق کے ساتھ ہر ممکن تعاون کے يقين دہانی کرائی ہے، جس ميں عسکری تعاون بھی شامل ہے۔ اس کانفرنس ميں قريب تيس ممالک کے نمائندوں کے علاوہ متعدد بين الاقوامی اداروں کے اراکين نے بھی شرکت کی۔ ايران کو اس اجلاس ميں شرکت کی دعوت نہيں دی گئی تھی۔