1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسلام آباد میں پارلیمنٹ کے سامنے احتجاجی دھرنے جاری

شکور رحیم، اسلام آباد20 اگست 2014

پاکستان میں تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے کارکنوں کے شاہراہ دستور پر پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے احتجاجی دھرنے جاری ہیں۔ اسی دوران آج بدھ کو صورتحال اچانک بہت تناؤ کا شکار بھی ہو گئی تاہم حالات قابو میں رہے۔

https://p.dw.com/p/1CyLZ
تصویر: AAMIR QURESHI/AFP/Getty Images

تناؤ کی صورت حال اس وقت پیدا ہوئی جب عوامی تحریک کے مظاہرین نے اپنے رہنما طاہر القادری کے کہنے پر پارلیمنٹ ہاؤس کی عمارت کا عین اس وقت گھیراؤ کر لیا جب اندر قومی اسمبلی کا اجلاس جاری تھا۔ ان حالات میں ایف سی اور رینجرز کے اہلکاروں نے طاہر القادری کے حامیوں کو پارلیمنٹ کے مرکزی دروازے تک ہی محدود رکھا۔

ریڈ زون میں شاہراہ دستور پر تمام اہم سرکاری عمارتوں کی سکیورٹی اس وقت فوج کے پاس ہے لیکن فوجی ان عمارتوں کے احاطے میں موجود ہیں جبکہ باہر پولیس، ایف سی اور رینجرز کے جوان ڈیوٹی دے رہے ہیں۔

تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بھی گزشتہ شب وزیر اعظم نواز شریف کے مستعفی نہ ہونے کے بعد اپنے کارکنوں کے ہمراہ آج بدھ کی شب وزیر اعظم ہاؤس میں گھسنے کا اعلان کر دیا تھا۔ اس کے بعد فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے ایک بیان جاری کیا گیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ شاہراہ دستور پر موجود عمارتیں ریاست کی علامتیں ہیں اور ان کی حفاظت فوج کر رہی ہے۔

Imran Khan Parteivorsitzender PTI Pakistan
تحریک انصاف کے رہنما عمران خان اپنے پارٹی ساتھیوں کے ہمراہتصویر: REUTERS

سیاسی رابطوں میں تیزی

حکومت کی جانب سے طاہر القادری کے ساتھ مذاکرات کی کوششیں بدھ کو اس وقت بار آور ثابت ہوئیں جب حکومتی وزراء خواجہ سعد رفیق اور عبدالقادر بلوچ ایم کیو ایم کے رہنما حیدر عباس رضوی اور رکن قومی اسمبلی اعجازالحق کے ساتھ مذاکرات کے لیے پہنچے۔ اس سے قبل پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر دھرنے میں شریک اپنے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ مذاکرات کے حامی ہیں، لیکن کوئی بھی ان کے ساتھ مذاکرات کے لیے نہیں آیا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت مذاکراتی ٹیمیں بھیجنےکا جھوٹا پروپیگنڈہ کررہی ہے۔ طاہر القادری نے کہا کہ کارکن دھرنا جاری رکھیں لیکن پارلیمنٹ کا محاصرہ ختم کر دیں۔ انہوں نے کہا، ’’میں نے جو پہلے بات کی تھی، اس کو بھی منسوخ کرتا ہوں۔ جو جاتا ہے، جانے دیں۔ جو آتا ہے، آنے دیں۔ دھرنا برقرار رکھیں مگر دروازوں کے آگے اتنا فاصلہ دے کر کہ کوئی یہ جھوٹا الزام نہ لگا سکے کہ تشدد ہو رہا ہے۔‘‘

اس موقع پر ایم کیو ایم کے رہنما حیدر عباس رضوی کا کہنا تھا، ’’ڈاکٹر صاحب نے بہت حوصلہ افزا بات کی ہے۔ مھجے لگ رہا ہے کہ یہ ڈیڈ لائن ختم ہونے والی ہے۔ ہم جا رہے ہیں حکومت کے پاس۔ تو حکومت کا ایک اعلیٰ سطحی وفد جو ان کے اعلیٰ سطحی وفاقی وزراء پر مشتمل ہو گا، انشا اللہ، ان کو ساتھ لانے کی پوری کوشش کریں گے یا وہ آزادانہ طور پر بھی ہیں تو ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں۔‘‘

Tahir-ul-Qadri Archiv 2013
پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادریتصویر: picture-alliance/dpa

عمران خان کی جانب سے ابھی تک حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے رضا مندی ظاہر نہیں کی گئی۔

قومی اسمبلی کا اجلاس

بدھ کے روز قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں وزیر اعظم نواز شریف کھل کر اعلان کریں کہ وہ مستعفی نہیں ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتیں پارلیمنٹ، آئین اور جمہوریت کی مضبوطی کے لیے وزیر اعظم کے ساتھ ہیں۔

پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ عمران خان اور طاہر القادری احتجاج کے دوران انتہائی گری ہوئی زبان استعمال کر رہے ہیں جو قابل قبول نہیں۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ ملک کے 18 کروڑ عوام کی نمائندہ ہے جبکہ شاہراہ دستور پر طاہر القادری کی طرف سے لگائی گئی عوامی پارلیمنٹ کو کسی بھی طور تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔

Nawaz Sharif 13.05.2013
وزیر اعظم نواز شریفتصویر: Reuters

عمران خان اور طاہر القادری کو نوٹس

اسی دوران پاکستانی سپریم کورٹ نے ملک میں ممکنہ بغاوت کو روکنے کے لیے دائر کردہ درخواستوں پر عمران خان اور طاہر القادری کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کل جمعرات کو جواب طلب کر لیا ہے۔ چیف جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے ملک کی مختلف بار ایسوسی ایشنوں کی جانب سے ملک کے موجودہ حالات کے بارے میں دائر کردہ درخواستوں کی سماعت کی۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر کامران مرتضیٰ نے سماعت کے آغاز پر کہا کہ دھرنوں کی وجہ سے آج عدالت میں وکلاء اور سائلین نہ پہنچ سکے اور بہت سے مقدمات ملتوی کرنا پڑے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ججوں کو بھی آج بہت لمبے راستے سے عدالت آنا پڑا۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کر کے کہا کہ یہاں اس مسئلے کو بھی مدنظر رکھا جائے کہ درخواست گزاروں، عدالتی افسران اور سپریم کورٹ اسٹاف کو ڈیوٹی پر آنے میں مشکل ہے، جس کی وجہ سے کام متاثر ہو رہا ہے۔

اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ نے اپنے دلائل میں کہا کہ دھرنے والے کہہ رہے ہیں کہ ایک قانونی حکومت کو ہٹایا جائے اور انہوں نے پارلیمنٹ کے باہر ایک نام نہاد اسمبلی بھی لگا رکھی ہے۔ اس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا حکومت کو ہٹانے کا طریقہ کار آئین میں دیا گیا ہے۔ آئین سے ہٹ کر کوئی طریقہ کار اپنایا گیا تو اسے لاقانونیت ہی کہا جائے گا۔ اس پر عدالت نے لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن ملتان کی درخواست پر عمران خان اور علامہ طاہر القادری کو نوٹس جاری کر کے کل تک جواب طلب کرلیا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید