اسلام آباد میں فوج کی تعیناتی، معاملہ عدالت میں
28 جولائی 2014اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس انور نے پیر کے روز فوج کی طلبی سے متعلق ایک درخواست کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ آئین کی بالا دستی کو یقینی بنانا عدلیہ کی اولین ذمہ داری ہے۔ اسلام آباد ڈسٹرکٹ بار کے صدر نصیر کیانی نے وفاقی دارالحکومت میں فوج طلب کرنے کے حکومتی فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے۔
حکومتی وزراء اسلام آباد میں فوج طلب کیے جانے کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس فیصلے کا مقصد عمران خان کے چودہ اگست کے لانگ مارچ یا طاہر القادری کی قیادت میں عوامی احتجاج کا راستہ روکنا نہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے گزشتہ شام اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فوج کو ملکی آئین کے دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے صرف نوے دنوں کے لیے طلب کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فوج اسلام آباد کی حفاظت کے لیے ضلعی انتظامیہ کی مدد کرے گی۔ انہوں نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ سول اور فوجی قیادت کے درمیان تعلقات اچھے نہیں تھے اور حکومت نے حزب اختلاف کے احتجاج سے خوفزدہ ہو کر فوج کو استعمال کر نے کا فیصلہ کیا ہے۔
چوہدری نثار نے کہا، ’’دور دور تک اللہ تعالی کی مہربانی سے جمہوریت کو کوئی خطرہ نظر نہیں آتا اور سول ملٹری تعلقات کی صورتحال بہت اچھی اور مثبت ہے۔ اب تو انتہائی ضرورت ہے کہ فوجی آپریشن میں صرف سول ملٹری تعلقات کو ایک صفحے پر نہیں ہونا چاہیے بلکہ تمام سیاسی جماعتوں اور تمام اداروں کو ایک ہی صفحے ہونا چاہیے۔‘‘
پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف اور دیگر مسلم لیگی رہنماؤں کی طرف سے عمران خان کے ساتھ رابطے سے متعلق چوہدری نثار نے کہا کہ عمران خان کو اسلام آباد میں دہشت گردی کے ممکنہ خطرے سے آگاہ کیا گیا ہے۔
دوسری جانب تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے حکومت کے ساتھ لانگ مارچ نہ کرنے سے متعلق کسی بھی قسم کی ڈیل کی سختی سے تردید کی ہے۔عمران خان نے پیر کے روز شمالی وزیرستان میں جاری فوجی آپریشن کے نتیجے میں بے گھر ہونے والوں کے ساتھ ضلع بنوں میں عید الفطر مناتے ہوئے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا، ’’ الیکشن کمیشن سے، ٹریبیونل سے کوئی مدد نہیں ملی۔ پھر ان کو بار بار موقع دیا، کہا کہ جوڈیشل کمیشن بنا دو، وہ نہیں کیا۔ اب تو فیصلہ چودہ تاریخ کو ہو گا اور کوئی چیز لانگ مارچ کو نہیں روک سکتی۔ اگر یہ فوج کے پیچھے چھپنا چاہتے ہیں اپنی دھاندلی چھپانے کے لیے، یہ ناکام ہوں گے۔ فوج پاکستان کی ہے۔ ان کی کوئی ذاتی غلام یا نوکر نہیں ہے۔ فوج پاکستان کے منتخب لوگوں کے خلاف کچھ نہیں کرے گی۔‘‘
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت نے عمران خان اور طاہرالقادری کی جانب سے لاکھوں افراد کے ہمراہ غیر معینہ مدت تک احتجاج کرنے کے فیصلے سے گھبرا کر فوج بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ سیاسی تجزیہ کار کامران شفیع کا کہنا ہے، ’’کوئی ضرورت نہیں تھی اس کے لگانے کی اس وقت، پندرہ اگست کو لگا دیتے۔ یا جیسے چوہدری صاحب اب کہتے ہیں یہ فیصلہ بہت دیر سے ہو چکا تھا، تو تب اس کا اعلان کر دیتے اور یہ کہہ دیتے کہ ابھی فیصلہ نہیں کیا۔ ہم اس کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ لیکن ہم لگائیں گے کیونکہ ہمیں دہشت گردی کا خطرہ ہے۔ تو اس میں مس ہینڈلنگ ہوئی ہے، اچانک 245 کا اطلاق کر کے۔‘‘
وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے بھی پیر کے روز عمران خان کے بیان پر رد عمل میں کہا کہ حکومت عمران خان کے مطالبات پر سنجیدگی سے غور کرنے کے لیے تیار ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں مل بیٹھ کر مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں۔ انہو ں نے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف کی سعودی عرب سے وطن واپسی پر اہم امور پر اجلاس ہو گا۔