1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسلام آباد میں فوج، حفاظتی اقدامات یا سیاسی چال

شکور رحیم ، اسلام آباد1 اگست 2014

پاکستانی دارالحکومت اسلام اباد میں وفاقی حکومت کی جانب سے ضلعی انتظامیہ کی مدد کے لیے فوج کی تعیناتی کے نوٹیفیکشن پر آج یکم اگست سے عمل درآمد شروع ہو گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1CnVI
تصویر: AFP/Getty Images

سرکاری ذرائع کے مطابق اسلام آباد میں تعینات بری فوج کے ساڑھے تین سو جوان آئین کے آرٹیکل 245کی شق ¾ کے تحت صرف انسداد دہشتگردی کی کارروائیوں میں حصہ لیں گے۔ اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ جہاں ضروری سمجھے گی ان فوجی جوانوں کو وہاں بھیجا جائے گا۔

ذرائع کے مطابق قبائلی علاقے شمالی وزیر ستان میں دہشتگردوں کے خلاف جاری آپریشن ضرب عضب شروع ہوتے ہی ساڑھے تین سو فوجی جوانوں کو دارالحکومت میں کسی بھی ہنگامی حالت سے نمٹنے کے لیے الرٹ رکھا گیا تھا۔ اب حکومتی نوٹیفکیشن نافذ العمل ہونے کے بعد انہیں کارروائی کا اختیار بھی حاصل ہو گا۔

وفاقی وزرات داخلہ نے چوبیس جو لائی کو آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ کی معاونت کے لیے یکم اگست سے اسلام آباد میں فوج کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا۔

Pakistan Flugzeug Absturz Air Blue
تصویر: AP

اس حکومتی فیصلے کو حزب اختلاف اور دیگر سیاسی جماعتوں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس حکومتی فیصلے کو ممکنہ طور پر حزب اختلاف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے چودہ اگست کو حکومت کے خلاف مجوزہ لانگ مارچ کا راستہ روکنے کی دانستہ کوشش سمجھا جا رہا ہے۔

تاہم وزیر داخلہ چوہدری نثار نے اس فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ فوج کو صرف نوے دنوں کے لیے اسلام آباد میں حساس عمارتوں کی حفاظت کے لیے طلب کیا گیا ہے۔

دفاعی تجزیہ کار وائس ائیر مارشل ریٹائرڈ شہزاد چوہدری کا کہنا ہے کہ حکومتی فیصلے کی ٹائمنگ کی وجہ سے تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ’’ پارلیمنٹ میں جو اپوزیشن جماعتیں ہیں ان کو یہ سوال پوچھنا چاہیے کہ وہ وجوہات بتائی جائیں جن کے تحت آرٹیکل دو سو پینتالیس نافذ کیا گیا ہے۔ لیکن بہر صورت یہ ایگزیکٹو اتھارٹی کا حق ہے اسے قانونی طور پر چیلنج نہیں کر سکتے۔ ان کی (حکومت) کی جو نیت ہے وہ ایک اخلاقی پہلو ہے اس کو چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ اگر ہم اپنی نیت کو کو درست رکھیں مقصد واضح اور شفاف ہو۔‘‘

دارالحکومت میں فوج طلب کیے جانے کے حکومتی اقدام کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی چیلنج کیا جا چکا ہے۔ عدالت نے سپریم کورٹ کے وکیل احسن الدین شیخ کی درخواست پر چھ اگست کو حکومت کو نوٹس جاری کر رکھا ہے۔

ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے احسن الدین شیخ کا کہنا ہے کہ عدالتی فیصلہ آنے تک حکومت کو ازخود ہی فوج کی تعیناتی مؤخر کر دینی چاہیے تھی۔

انہوں نے کہا ’’ 1977 ء میں ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے لاہور میں فوج بلائی تھی تو اس کے بعد پھر فوج بیرکوں میں واپس نہیں گئی تھی۔ تو میں نہیں سمھجتا کہ ان حالات میں فوج کو بلانا چاہیے تھا۔ اگر عمران خان کی طرف سے چودہ اگست کا کوئی معاملہ ہے تو اسے سیاسی طور پر حل کیا جانا چاہیے تھا۔‘‘

تحریک انصاف کے راہنماؤں نے بھی حکومتی فیصلے کو فوج کی آڑ لے کر عوامی رد عمل سے بچنے کی سازش قرار دیا ہے۔ تاہم پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان اعلان کر چکے ہیں کہ ان کی جماعت ہر صورت میں چودہ مارچ کو لانگ مارچ کر ے گی۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں فوج کی تعیناتی کا حکومتی فیصلہ انتظامی سے زیادہ سیاسی ہے اور آنے والے دنوں میں فوج کو غیر جانبدار رہنے سمیت حکومت کے ساتھ تعاون یا اپوزشن جماعتوں کے حق میں خاموشی اختیار کرنے میں سے کوئی ایک فیصلہ کرنا پڑ سکتا ہے۔