1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسرائیلی فرم ایران کو ایک ارب ڈالر ادا کرے، عدالتی فیصلہ

مقبول ملک21 مئی 2015

سوئٹزرلینڈ کی ایک عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ تیل کی صنعت کے متنازعہ ہو جانے والے ایک مشترکہ منصوبے کے سلسلے میں ایک اسرائیلی فرم کو ایران کو زر تلافی کے طور پر ایک بلین ڈالر سے زائد کی رقم ادا کرنا ہو گی۔

https://p.dw.com/p/1FTTu
ایران کا شمار دنیا میں تیل برآمد کرنے والے بڑے ملکوں میں ہوتا ہےتصویر: imago/Xinhua

ایرانی دارالحکومت سے جمعرات اکیس مئی کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق یہ بات ایران کے سرکاری خبر رساں ادارے اِرنا نے بتائی۔ ان رپورٹوں میں ایرانی وزارت انصاف کے ایک اہلکار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس مقدمے میں جس تیل کمپنی کو فریق بنایا گیا تھا،ا س کا نام Tao ہے، جو پاناما میں رجسٹرڈ ایک اسرائیلی کمپنی ہے۔

اس کمپنی نے 1979ء کے اسلامی انقلاب سے پہلے کے شاہی دور میں ایران کی سرکاری تیل کمپنی کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا۔ ستر کی دہائی کے آخر میں آیت اللہ خمینی کی قیادت میں اسلامی انقلاب کے وقت تک اس اسرائیلی کمپنی کے ذمے 450 ملین ڈالر تھے جو اسے ایران کو ادا کرنا تھے۔ لیکن ایران کے اسلامی جمہوریہ بنتے ہی نئی ملکی قیادت نے ’تاؤ‘ کے ساتھ یہ معاہدہ اس لیے منسوخ کر دیا تھا کہ آج کی طرح اس وقت بھی ایران نے اسرائیل کے ریاستی وجود کو باقاعدہ طور پر تسلیم نہیں کیا تھا۔

اِرنا نے ایرانی وزارت انصاف کے ایک اعلٰی اہلکار کے آج دیے گئے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ ایرانی قومی تیل کمپنی NIOC اور Tao کے درمیان عدالتی سطح پر قانونی جنگ کا آغاز 1989ء میں ہوا تھا، جس میں تہران کی طرف سے اس کمپنی سے اپنے لیے ماضی کے واجبات کے پیش نظر زر تلافی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

اے ایف پی کے مطابق اس سلسلے میں سوئٹزرلینڈ کی ایک عدالت نے چند روز قبل اپنا فیصلہ سناتے ہوئے اسرائیلی کمپنی ’تاؤ‘ کو حکم دیا کہ وہ ایرانی نیشنل آئل کمپنی کو 1.1 بلین ڈالر ادا کرے۔

تہران میں سرکاری حکام کے مطابق شاہ ایران کے دور میں 1968ء میں ان دونوں ایرانی اور اسرائیلی تیل کمپنیوں نے ایک ایسے معاہدے پر دستخط کیے تھے، جس کے تحت ’تاؤ‘ کو بحیرہء اسود کے راستے ایرانی تیل کی یہودی ریاست کو ترسیل کی ذمے داری سونپی گئی تھی۔

اِرنا کے مطابق اس وقت بھی چونکہ ایران نے اسرائیلی ریاست کو باقاعدہ طور پر تسلیم نہیں کیا تھا، اس لیے قانونی حوالے سے یہ معاہدہ ایک ایسی اسرائیلی تیل کمپنی کے ساتھ کیا گیا تھا، جو پاناما میں رجسٹرڈ تھی۔