’استوائی بیماریوں سے نمٹنے کے لیے اربوں ڈالر درکار‘
19 فروری 2015ان میں ڈینگی بخار، جذام اور نیند کی بیماری بھی شامل ہے۔ عالمی ادارے کے مطابق ان عارضوں کے باعث ہر سال پانچ لاکھ افراد موت کا شکار ہو جاتے ہیںِ۔
عالمی ادارہ صحت کے اندازوں کے مطابق دنیا کے لگ بھگ 149 ممالک کے ڈیڑھ بلین انسان ان بیماریوں کا شکار ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق یہ سرمایہ کاری لاتعداد جانوں کو بچانے، انسانوں کی معذوری کے امکانات دور کرنے اور ان کے مصائب ختم کرنے کے ساتھ ساتھ ملکی پیداواری صلاحیت میں اضافے کا باعث بنے گی۔
استوائی بیماریوں کا گڑھ
ڈبلیو ایچ او کے گرم علاقوں یا اُستوائی بیماریوں کے کنٹرول کے شعبے کے سربراہ ڈرک اینجلز نے جنیوا میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’افریقہ وہ براعظم ہے جہاں ان بیماریوں کے شکار افراد کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ ان میں سے بہت سے مریض ایک سے زیادہ استوائی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔‘
‘
ڈرک اینجلز کا مزید کہنا تھا کہ سب صحارا کے افریقی تعلق سے رکھنے والے کوئی 450 ملین انسان ان بیماریوں کے خطرے کا سے دو چار ہیں۔ اس کے علاوہ لاطینی امریکا، مشرق وسطیٰ، وسطی ایشیا اورایشیا کے عوام پر بھی یہ بیماریاں حملہ کر سکتی ہیں۔ یہاں تک کہ یورپ اور امریکا کو بھی ان بیماریوں سے مکمل طور پر محفوط قرار نہیں دیا جا سکتا۔
نظر انداز کر دی جانے والی استوائی بیماریاں
ڈینگی بُخار کے ساتھ ساتھ نیند کی بیماری، جذام، پاگل کُتے کے کاٹنے سے پیدا ہونے والی بیماری’ ہاولا‘، آنکھ کی بیماری ’ ککرے‘، بورولی السر، رامبیزیا، چاگاز کا مرض، کالا آزار، کیچوی مرض، گنی ورم ڈیزیز، ٹیپ ورم سے لگنے والا مرض، غذائی ورم سے پیدا ہونے والی بیماری وشیعہ، فیل پائی، دریائی اندھا پن، مرض توُرّق لونیہ، مٹی کے ذریعے جسم میں منتقل ہونے والے کیڑوں سے پیدا ہونے والی بیماری دیدانیت۔ یہ تمام بیماریاں منطقہ حارہ سے متعلق امراض میں شامل ہیں اور یہ متعدی ہوتی ہیں اور اکثر وبا کی شکل میں پھیل جاتی ہیں۔
ڈبلیو ایچ او نے مشورہ دیا ہے کہ 2020ء تک ہر سال 2.9 بلین ڈالرز کی سرمایہ کاری کر کے ان بیماریوں کا علاج اور انہیں پھیلانے والے کیڑوں اور جرثوموں کا سد باب کیا جا سکتا ہے۔
ان بیماریوں کے اقتصادی اثرات
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے ترقی پذیر ممالک سے کہا ہے کہ نظر انداز کر دی جانے والی مذکورہ 17 بیماریوں سے نمٹنے کے لیے وہ 2030ء تک ہر سال ہر ایک باشندے پر ایک ڈالر کی سرمایہ کاری کریں۔ اس طرح ڈیڑھ بلین انسانوں کی صحت کو بہتر بنایا جا سکتا ہے اور اُن کے بہبود کے لیے یہ اقدام مؤثر ثابت ہو سکتا ہے۔
ڈبیلو ایچ او کی ڈائریکٹر جنرل مارگریٹ چن کے مطابق، ’’قومی حکومتوں کی طرف سے صحت کے شعبے میں کی جانے والی سرمایہ کاری میں اضافے سے انسانی مصائب کا خاتمہ، اور غربت کی چکی میں ایک طویل عرصے سے پسنے والے عوام کے درمیان مالی فوائد کی برابر اور منصفانہ تقسیم کو ممکن بنایا جا سکتا ہے۔‘‘