1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اب جسمانی اعضاء بھی پرنٹ ہوں گے

افسر اعوان19 جنوری 2015

جاپانی سائنسدانوں نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ بہت جلد تھری ڈی یا سہ جہتی پرنٹر کے ذریعے اپنی مرضی کے مطابق انسانی جلد، ہڈیاں اور جوڑ تیار کر سکیں گے۔

https://p.dw.com/p/1EMdk
تصویر: YOSHIKAZU TSUNO/AFP/Getty Images

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق دنیا بھر میں محققین امپلانٹ یا پیوندکاری کے لیے ٹشوز کے چھوٹے چھوٹے حصے تو تیار کرنے میں کامیابی حاصل کر چکے ہیں، مگر اب وہ اس کے اگلے مرحلے میں مکمل ٹشوز کو اس طرح تیار کرنا چاہتے ہیں کہ یہ انسانی ٹشوز کی طرح کام کر سکیں۔

سویوشی ٹکاٹو (Tsuyoshi Takato) ٹوکیو ہاسپٹل یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔ ٹکاٹو کے مطابق ان کی ٹیم ایک ’نیکسٹ جنریشن بائیو تھری ڈی پرنٹر‘ کی تیاری پر کام کر رہی ہے، جو بائیو میٹریل کی بہت باریک تہیں بنائے گا، جن کی مدد سے اپنی مرضی کے مطابق اعضاء تیار کیے جا سکیں گے۔

اب تک ہونے والی پیشرفت میں ایک پرنٹر کمپیوٹر ٹوموگرافی (CT) اسکین سے حاصل ہونے والے ڈیٹا یا اعداد و شمار کے مطابق چند گھنٹوں میں پیوند کاری کے لیے حصہ تیار کر دیتا ہے
اب تک ہونے والی پیشرفت میں ایک پرنٹر کمپیوٹر ٹوموگرافی (CT) اسکین سے حاصل ہونے والے ڈیٹا یا اعداد و شمار کے مطابق چند گھنٹوں میں پیوند کاری کے لیے حصہ تیار کر دیتا ہےتصویر: Jutta Wasserrab

ان کی ٹیم کے ماہرین اسٹیم سیل، پروٹو سیل جو جسم کے کسی بھی حصے کی شکل اختیار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ایسی پروٹینز کو ملاتے ہیں، جو نشوونما میں اضافے میں مدد کرتے ہیں۔ ان میں انسانی کولیجن جیسا سنتھیٹک مادہ بھی شامل کیا جاتا ہے۔ کولیجن ہڈیوں کے گودے میں موجود ہوتا ہے۔

ٹکاٹو کے مطابق ایک تھری ڈی پرنٹر کے استعمال سے یہ ماہرین ایک جسمانی عضو کے اسٹرکچر کی طرز پر اعضاء تیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جن میں سخت سطح کے علاوہ ہڈیوں کے اندر موجود اسپونج کی طرح کا مادہ بھی شامل ہو گا۔

اے ایف پی کے مطابق اب تک ہونے والی پیشرفت میں ایک پرنٹر کمپیوٹر ٹوموگرافی (CT) اسکین سے حاصل ہونے والے ڈیٹا یا اعداد و شمار کے مطابق چند گھنٹوں میں پیوند کاری کے لیے حصہ تیار کر دیتا ہے۔ پلاسٹک سرجن کے مطابق یہ پیوند یا امپلانٹ جسم کے اندر درست طور پر لگا دیا جاتا ہے، جس کے بعد یہ مریض کے جسم کے اصل ٹشوز اور دیگر اعضاء کے ساتھ بہت جلد ضم ہو جاتا ہے۔

سویوشی ٹکاٹو کے مطابق، ’’ہم عام طور پر کارٹیلیج (Cartilage) یعنی کُرکری ہڈی یا ہڈی مریض کے ہی جسم سے لیتے ہیں، لیکن جس منصوبے پر ان کی ٹیم کام کر رہی ہے، اس میں بنیادی مواد مریض کے جسم سے لینے کی ضرورت نہیں ہو گی۔‘‘

اس ٹیکنالوجی میں کامیابی ایسے بچوں کے لیے بھی امید کی ایک کرن ثابت ہو گی، جو ہڈیوں یا کارٹیلیج کے مسائل کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ چونکہ ایسے بچوں کی نشو ونما کی شرح بہت زیادہ نہیں ہوتی، اس لیے ان کے لیے ریگولر سنتھیٹک امپلانٹس فائدہ مند نہیں ہوتے۔

ٹکاٹو کے مطابق ان کی ٹیم کا ہدف یہ ہے کہ وہ اگلے تین برس کے اندر اندر تھری ڈی پرنٹر سے تیار کردہ جلد کے کلینکل ٹرائل شروع کر دے، جس کے بعد ہڈیوں، کارٹیلیج اور جوڑوں کی جانب توجہ مرکوز کی جائے گی۔