1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آکٹوپس کی ’مدد ‘ سے کیموفلاج مادہ بنا لیا گیا

ندیم گِل20 اگست 2014

امریکی محققین نے ایک ایسا مادہ بنا لیا ہے جو خودکار طریقے سے رنگ تبدیل کرتے ہوئے ماحول میں ڈھل جاتا ہے۔ یہ پیش رفت آکٹو پس کی ماحول میں ڈھلنے کی صلاحیت سے متاثر ہے۔

https://p.dw.com/p/1CxOz
تصویر: AP

یہ ایک مہین اور لچک دار فیبرک ہے۔ کَٹل فیِش، سکیوڈ اور ہشت پا یعنی آکٹوپس جیسی سمندری حیات کو سیفا لوپوڈا یعنی سرپایہ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ ان سب کی جِلد میں قدرتی طور پر ایسے سینسر لگے ہوتے ہیں جو کسی نہ کسی طرح رنگ بدلنے (کیموفلاج) میں ان کی مدد کرتے ہیں جس کی مدد سے وہ خود کو ارد گرد کے ما‌حول میں ڈھالتے ہوئے اس کا حصہ بن جاتے ہیں۔

انجینئروں اور ماہرینِ حیاتیات نے ایسی سمندری حیات کا بغور مشاہدہ کیا ہے۔ تین سالہ اس تحقیقی مطالعے کے لیے امریکی بحریہ نے مالی معاونت فراہم کی جس کا مقصد ایک ایسا میٹریل بنانا تھا جو رنگ تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔

اس تحقیقی ٹیم کے ابتدائی نتائج ’پروسیڈنگ آف دی نیشنل اکیڈمی آف سائسنز‘ کے اگست کے وسط میں سامنے آنے والے ایک ایڈیشن میں پیش کیے گے ہیں۔ ان کے مطابق اس فیبرک کے تجارتی استعمال کا فی الحال دُور دُور تک کوئی امکان نہیں ہے۔

Flash-Galerie Krake Tintenfisch Paul Oktopus
بے بی آکٹوپستصویر: AP[M]

تاہم خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ماہرین کے حوالے سے بتایا ہے کہ آرکیٹیکٹس، انٹریئر ڈیزائنرز، فیشن ہاؤسز اور یہاں تک کہ فوج بھی اس سائنسی پیش رفت پر نظریں لگائے بیٹھی ہے جو انسان کے بنائے ہوئے رنگ بدلنے والے اس نوعیت کے پہلے میٹریل سے استفادہ کرنا چاہتی ہے۔

اس تحقیقی مطالعے کے مرکزی مصنف جان راجرز کا کہنا ہے: ’’اگر آپ اسے سفید لائٹ اور مختلف طریقوں سے روشن کریں تو اس میں خود کار طریقے سے تبدیلیاں ہوں گی اور یہ ایک ایسی شکل اختیار کرے گا جو اسے ماحول میں ضم کر دے گی۔‘‘

یونیورسٹی آف الونوئے میں ڈیپارٹمنٹ آف میٹریلز سائنس اینڈ انجینئرنگ کے سربراہ راجرز نے مزید کہا کہ رنگ بدلنے والے وال پیپر کی تخلیق ابھی دُور ہے لیکن یہ ایک ایسا قدم ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ اس نہج پر پہنچ سکتا ہے۔

اس لچک دار میٹریل کی پرتیں درجہ حرارت سے تیزی سے اثر انداز ہونے والی ڈائی اور فوٹوسینسر پر مشتمل ہے جو ایک سے دو سیکنڈ میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔

کم درجہ حرارت میں ڈائی سیاہ پڑ جاتی ہے جبکہ سینتالیس ڈگری سینٹی گریڈ سے اُوپر درجہ حرارت میں یہ شفاف ہو جاتی ہے۔ اس مطالعے کے نتائج میں بتایا گیا ہے: ’’یہ آلات سیاہ و سفید پیٹرنز بنانے کی اہلیت رکھتے ہیں جو بے ساختہ ارد گرد کے ماحول میں ڈھل جاتے ہیں۔

اس مطالعے کی بین الاقوامی تحقیقی ٹیم میں چین کے بڑے اداروں سے کیمیائی اور مکینکس کے ماہرین بھی شامل ہیں۔ میساچوسٹس کے شہر وُڈز ہول میں میرین بائیولوجیکل لیبارٹری کے ایک اعلیٰ سائنسدان راجر ہیلون بھی اس مطالعے کا حصہ ہیں۔ وہ سیفا لوپوڈا کی جِلد کی نفسیات کے نامور ماہر ہیں۔