1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آکسیجن کی مدد سےسرطان کی رسولیوں کا علاج

کشور مصطفیٰ4 فروری 2015

سرطان کے موذی مرض سے ہر کوئی خوفزدہ رہتا ہے۔ دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا انسان ہو جو اس مرض میں مبتلا کسی مریض کو نہ جانتا ہو یا جس کے جاننے والوں میں سے کسی کی کینسر کے ہاتھوں موت واقع نہ ہوئی ہو۔

https://p.dw.com/p/1EVYi
تصویر: Universität Tübingen

سرطان کے موذی مرض سے ہر کوئی خوفزدہ رہتا ہے۔ دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا انسان ہو جو اس مرض میں مبتلا کسی مریض کو نہ جانتا ہو یا جس کے جاننے والوں میں سے کسی کی کینسر کے ہاتھوں موت واقع نہ ہوئی ہو۔

سائنسدان اس مہلک بیماری کے علاج کی دریافت پر ایک عرصے سے تحقیق کر رہے ہیں۔ اب یورپی ملک سوئٹزرلینڈ میں اس سلسلے میں ایک دلچسپ نکتہ سامنے آیا ہے۔

زیورخ یونیورسٹی ہسپتال کے سائنسدانوں نے ایک اسٹڈی مکمل کی ہے جس میں آکسیجن کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ اب تک کینسر کی رسولیوں کے علاج کا جو طریقہ تھا، اس کے عین برعکس سوئس سائنسدانوں نے ایک تجربہ کیا۔ یہ محققین کینسر کے ٹیومر یا رسولی کو آکسیجن فراہم کرتے ہیں۔ اب تک کینسر کے علاج کے لیے جو طریقہ استعمال کیا جا رہا تھا، اس میں سائنسدان سرطانی رسولیوں میں آکسیجن کی مقدار کم کرنے کی کوشش کرتے تھے تاکہ ایسی رسولیوں میں خون کی شریانیں نہ بن پائیں۔ اس کے برعکس سوئس سا‌ئنسدان رسولیوں میں آکسیجن میں اضافے کے ساتھ ساتھ کیمیائی مولیکیول ITPP یا Inositol Trisprophosphate ڈالتے ہیں۔ محققین کے مطابق اس طریقے سے پہلے رسولیوں میں خون کی ان شریانوں کو معمول کی سطح پر لایا جاتا ہے جو ان ٹیومرز میں تبدیلیوں کا باعث بنتی ہیں۔

Labor Dr Ian Hampson Krebs Krebsforschung
یہ تجربہ جانوروں پر کیا گیا ہےتصویر: Lars Bevanger

خطرناک رسولیوں کا علاج

اس نئے مطالعے کے سربراہ پروفیسر پیئر ایلاں کلاویاں کا کہنا ہے کہ سرطانی رسولی میں آکسیجن کا اضافہ کر کے اس میں خون کی شریانوں کی نشو و نما کے ساتھ ساتھ کیموتھراپی سے علاج کرنا مؤثر ثابت ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’ہم نے یہ تجربہ جانوروں پر کیا اور دیکھا کہ رسولی میں آکسیجن کے اضافے کے مثبت اثرات کیموتھراپی پر رونما ہوتے ہیں اور اس طرح کیموتھراپی کا طریقہ علاج مؤثر تر ہو جاتا ہے۔ ان دونوں عوامل کو ملا کر کینسر کی رسولی کا علاج کیا جائے تو اس کے بہت بہتر نتائج نکل سکتے ہیں۔‘‘

خطرناک ترین رسولیاں

ہر طرح کا کینسر یا سرطان خطرناک ثابت ہو سکتا ہے تاہم اس کی چند اقسام بہت ہی خطرناک ہوتی ہیں جن کے مریضوں کو بچانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر پینکریاز یا لبلبے کا کینسر، جگر کا سرطان اور بڑی آنتوں کا کینسر اس مرض کی بدترین اور سب سے زیادہ خطرناک اقسام مانی جاتی ہیں۔ ان بیماریوں کی تشخیص اگر ابتدائی مرحلے میں ہی ہو جائے تو زیادہ تر واقعات میں مریض کا آپریشن کر دیا جاتا ہے۔ لیکن اگر یہ بیماری پھیل چکی ہو اور اس کی تشخیص ابتدائی مرحلے میں نہ ہو سکی ہو تو اس پر قابو پانا ناممکن ہو جاتا ہے۔ ایسے مریضوں کی کیموتھراپی کی جاتی ہے اور اب تک جو طریقہ علاج استعمال کیا جا رہا تھا، اس میں ٹیومر میں آکسیجن کے جذب ہونے کو کم سے کم کر کے رسولی میں شریانوں کی نشوونما کو روکنے کی کوشش کی جاتی تھی جبکہ سوئس سائنسدان اب اس کے بالکل برعکس طریقہ کار استعمال میں لائے ہیں۔

Mit Algen gegen Krebs
لبلبے کا کینسر، جگر کا سرطان اور بڑی آنتوں کا کینسر اس مرض کی بدترین اقسام مانی جاتی ہیںتصویر: Frank Hajasch

خون یا لِمف کی خطرناک ثانوی نشو و نما

زیورخ یونیورسٹی ہسپتال کے جگر اور لبلبے کی بیماریوں کے شعبے سے منسلک ماہر ڈاکٹر پَیرپاریم لیمانی کے مطابق، ’’ٹیومر یا رسولی کے ایک خاص سائز تک کا ہو جانے کے بعد اس تک خون کے ذریعے آکسیجن کی کافی مقدار نہیں پہنچ پاتی، اس طرح ٹیومر کو مطلوب غذائیت نہیں ملتی اور آکسیجن کی مقدار بہت کم رہ جاتی ہے یعنی ’ہائی پوکسی‘ پیدا ہو جاتی ہے۔ آکسیجن کی یہ کمی ٹیومر میں ’میٹابولک تعامل‘ پیدا کرتی ہے اور اس طرح اس کا رویہ بھی تبدیل ہو جاتا ہے۔‘‘

ٹیومر کے خلیوں میں آکسیجن کی کمی کے سبب یہ بہت زیادہ فعال اور جارحانہ ہو جاتا ہے اور پھر خون کے ذریعے جسم کے دیگر حصوں یا اعضاء تک پھیلنا شروع ہو جاتا ہے۔