1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آنیماری شمل: برسی خاموشی سے گزر گئی

امجد علی28 جنوری 2015

جرمنی کی ممتاز مستشرِق آنیماری شمل کا انتقال بارہ سال پہلے چھبیس جنوری 2003ء کو جرمن شہر بون میں ہوا تھا، جہاں آج کل اُن کی آخری آرام گاہ بھی ہے۔ انتقال کے وقت اُن کی عمر 80 برس تھی۔

https://p.dw.com/p/1ES0M
جرمن مستشرِق آنیماری شمل بون میں آسودہٴ خاک ہیں
جرمن مستشرِق آنیماری شمل بون میں آسودہٴ خاک ہیںتصویر: CC BY-SA 3.0/Dadamax

اگرچہ آنیماری شمل دنیا کی مختلف چوٹی کی یونیورسٹیوں سے وابستہ رہیں تاہم انتقال کے وقت وہ بون یونیورسٹی میں پڑھا رہی تھیں، جس کا شمار جرمنی کی بڑی اور قدیم یونیورسٹیوں میں ہوتا ہے۔ وہ اس یونیورسٹی کی مرکزی عمارت کے بالکل ساتھ واقع گلی لینے شٹراسے ہی میں ایک چھوٹے سے اپارٹمنٹ میں رہا کرتی تھیں۔

80 سال کی عمر میں بھی اُن کا ذہن پوری طرح سے بیدار، ارادے اور عزائم جوان تھے اور وہ مختلف موضوعات پر لیکچر دینے کے لیے دُور دُراز کے سفر کیا کرتی تھیں۔ اُن کا شمار مغربی دُنیا کی اُن معدُودے چند شخصیات میں ہوتا تھا ، جنہیں مذہبِ اسلام ، صوفیانہ تحریکوں اور اسلامی ممالک کے فنونِ لطیفہ کے حوالے سے سند کادرجہ حاصل تھا۔ پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک میں تو آنیماری شمل کا نام بہت زیادہ جانا پہچانا ہے اورکسی تعارُف کا محتاج نہیں ہے۔

جرمن مستشرِق آنیماری شمل کی یہ تصویر 1995ء میں اسلام آباد میں اتاری گئی تھی
جرمن مستشرِق آنیماری شمل کی یہ تصویر 1995ء میں اسلام آباد میں اتاری گئی تھیتصویر: dpa - Fotoreport

آنیماری شمل 7 اپریل 1922ء کو مشرقی جرمن شہر ایرفُرٹ میں پیدا ہوئی تھیں۔ وہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھیں اور ماں باپ نے اُنہیں نہایت لاڈ اور پیار سے پالا تھا۔ اپنے ماں باپ کا ذکر وہ بے حد محبت کے ساتھ کرتی تھیں۔ اپنے انتقال سے کچھ عرصہ پہلے ڈی ڈبلیو اردو کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا:’’اپنے والدین کے بغیر مَیں شاید وہ سب کچھ حاصل نہ کر سکتی، جو مَیں نے کیا۔ وہ کوئی اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ نہیں تھے لیکن دونوں ہی علمی اور فکری موضوعات میں بے حد دلچسپی لیتے تھے اور یہی وہ ماحول تھا ، جس میں میری پرورش ہوئی۔‘‘

اسکول میں آنیماری شمل کی کارکردگی انتہائی شاندار تھی اور وہ ہر کلاس میں اوّل آیا کرتی تھیں۔ اسکول ہی کے زمانے میں پندرہ برس کی عمر میں اُن کے دِل میں اسلام کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کا اور خاص طور پر عربی زبان سیکھنے کا شوق پیدا ہوا۔ تب اُنہوں نے باقاعدگی سے یہ زبان سیکھنا بھی شروع کی اور ساتھ ساتھ اُن کے دِل میں عرب دُنیا اور خطہءِ مشرق کو زیادہ قریب سے دیکھنے اور جاننے کی بھی آرزو پیدا ہوئی۔

آنیماری شمل کی ایک سو سے بھی زیادہ تصنیفات میں اُن کی خود نوِشت سوانح عمری ’’میری شرقی غربی زندگی‘‘ بھی شامل ہے
آنیماری شمل کی ایک سو سے بھی زیادہ تصنیفات میں اُن کی خود نوِشت سوانح عمری ’’میری شرقی غربی زندگی‘‘ بھی شامل ہے

یونیورسٹی میں آنیماری شمل نے عربی اور فارسی کے ساتھ ساتھ ترکی اور اُس سے ملتی جُلتی زبانوں جیسے اُزبِک اور تاتاری پر بھی کام کیا۔ چونکہ ملک حالتِ جنگ میں تھا ، اِس لیے شمل کو تعلیمی مصروفیات کے ساتھ ساتھ باقی طلبہ کے ہمراہ روزانہ دَس دَس گھنٹے کسی فیکٹری میں کام بھی کرنا پڑتا تھا۔ یہی وہ دَور تھا ، جب آنیماری شمل نے پہلی مرتبہ علامہ اقبال کا ذکر سنا:’’یہ سن 1940ء کے اواخر کی بات ہو گی کہ مَیں نے پہلی بار اقبال کے بارے میں پڑھا۔ یہ پروفیسر نکلسن کا لکھا ہوا ایک مضمون تھا، جو 1927ء میں رسالے اِسلامِیکا میں شائع ہوا تھا اور اِس مضمون میں اقبال کی کتاب پیامِ مشرِق کا تجزیہ کیا گیا تھا۔ اور تب مَیں نے یہ دیکھا کہ اِس کا تو تعلق شہر لاہور سے ہے اور یہ کہ یہ میری محبوب شخصیت رومی سے محبت کرتا ہے اور جو گوئتھے کا بھی مداح ہے۔ اور تب مَیں نے خود سے کہا : ’’اِس شخص پر تمہیں بعد میں کام کرنا ہے ۔‘‘

نومبر1941ء میں آنیماری شمل نے محض 19 برس کی عمر میں عربی زبان و ادب اور اسلامی علوم کے شعبے میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی اور یوں یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد وہ جرمن وزارتِ خارجہ سے منسلک ہو گئیں۔ دوسری عالمی جنگ کے بعدجنوری 1946ء میں اُنہوں نے ماربُرگ یونیورسٹی سے پروفیسر شِپ کا امتحان پاس کیا۔ جنگ کے بعد یہ امتحان پاس کرنے والی وہ پہلی شخصیت تھیں اور شمل کے بقول پورے شہر ماربُرگ کیلئے یہ ایک ہنگامہ خیز خبر تھی کہ محض 23 برس کی عمر میں وہ یونیورسٹی کی اُستاد بن گئی ہیں۔ تب آنیماری شمل نے یونیورسٹی میں اپنے پہلے لیکچر میں رابعہ بصری، منصور حلاج اور مولانا جلال الدین رُومی پر باتیں کیں۔

آنیماری شمل سے موسوم لاہور کے اس مرکز میں دیگر ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ جرمن زبان بھی پڑھائی جاتی ہے
آنیماری شمل سے موسوم لاہور کے اس مرکز میں دیگر ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ جرمن زبان بھی پڑھائی جاتی ہےتصویر: picture-alliance/dpa/dpaweb

پروفیسر کی حیثیت سے یہ اُس بے مثال اور کامیاب کیریئر کا نقطہ ءِ آغاز تھا ، جس کے دوران شمل نے ماربُرگ ہی میں نہیں بلکہ بعد ازاں انقرہ ، بون ، ہاروَرڈ اور کیمبرج یونیورسٹی جیسی ممتاز درسگاہوں میں پڑھایا۔ وقت کے ساتھ ساتھ اُنہوں نے اُردو اور سندھی بھی سیکھی، کئی دیگر مشرقی اور مغربی زبانوں پر بھی عبور حاصل کیا اور ساتھ ساتھ اقبال ، اسلام ، صوفی ازم اور اسلامی تاریخ و ثقافت پر مسلسل کتابیں لکھنے کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ آنیماری شمل کی تصنیفات کی تعداد ایک سو سے بھی زیادہ ہے، جن میں اُن کی خود نوِشت سوانح عمری ’’میری شرقی غربی زندگی‘‘ بھی شامل ہے، جو اُن کے انتقال سے کچھ ہی عرصہ پہلے منظرِ عام پر آئی تھی۔

1958ء میں آنیماری شمل پہلی مرتبہ پاکستان اور بھارت کے دَورے پر گئیں۔ 1965ء میں وہ مذہبی مؤرخین کی ایک کانفرنس منظم کرنے کے سلسلے میں پہلی مرتبہ امریکہ گئیں، جہاں وہ ہَارورڈ یونیورسٹی کی جانب سے پیشکش کو قبول کرتے ہوئے وہاں کے ہند مسلم ثقافت کے شعبے سے وابستہ ہو گئیں۔ ہَارورڈ میں قیام کے دوران اُنہیں پاکستان، بھارت، ترکی، عراق اور دیگر اسلامی ممالک سے تعلق رکھنے والے کئی ساتھی ملے، جن میں سے کئی اُن کے شاگرد بھی تھے۔ ہَارورڈ میں شمل نے پاک و ہند کے ادب اور اقبال سے لے کر رومی تک، صوفی ازم کی تاریخ سے لے کر اسلام میں مظہریت کے فلسفے تک اور عربی زبان سے لے کر اسلامی خطاطی تک سب کچھ پڑھایا۔ ہَارورڈ میں اپنے قیام کا ایک بڑا کارنامہ وہ اپنے ہند اسلامی ثقافت کے شعبے کی اُردو اور سندھی کتابوں کی اُس لائبریری کو قرار دیتی ہیں، جو شکاگو اور لائبریری آف کانگریس کے ساتھ ساتھ امریکہ کی بہترین لائبریری سمجھی جاتی ہے۔