1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آزمائشی دوا تپِ دق کے علاج میں کارگر

ندیم گِل21 جولائی 2014

دواؤں کا ایک تجرباتی آمیزہ تپِ دق کے خلاف انتہائی کارگر پایا گیا ہے۔ آسٹریلیا میں جاری ایڈز فورم میں نئی تحقیق کے نتائج پیش کیے گئے جن کے مطابق یہ دوا تپِ دق کے علاج کے عمل کو ڈرامائی حد تک تیز کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

https://p.dw.com/p/1CfzW
تصویر: DW/B. Das

یوں اس دوا کو روایتی اینٹی بائیوٹِکس پر برتری حاصل ہو سکتی ہے۔ اسے PaMZ رجیمن کا نام دیا گیا ہے۔ محققین کے مطابق یہ رائج تھراپی کے مقابلے میں تپِ دق (ٹی بی) کے زیادہ بیکٹیریا ہلاک کر سکتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ یہ دوا بیکٹیریا کو کہیں تیزی سے ختم کرتی ہے۔

ٹی بی الائنس کا کہنا ہے کہ اس تجرباتی منصوبے کے لیے مالی معاونت حاصل ہو گئی تو آزمائشی عمل تیسرے مرحلے میں داخل ہو جائے گا۔ وقت کے ساتھ ساتھ تپِ دق کے ایسے بیکٹیریا پیدا ہو چکے ہیں جو دستیاب دواؤں کے قابو سے باہر ہیں۔ اس صورتِ حال نے ماہرینِ طب کو تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے۔

ٹی بی کی یہ سطح ایسے مریضوں کے لیے ب‍الخصوص خطرناک ہے جو ایڈز کا باعث بننے والے ایچ آئی وی میں بھی مبتلا ہوں۔ پی اے ایم زیڈ دراصل دو دواؤں پر مشتمل ہے جنہیں فی الحال تپِ دق کے خلاف استعمال کیے جانے کی منظوری نہیں دی گئی۔

AIDS Konferenz Melbourne Trauer
آزمائشی علاج کی معلومات انٹرنیشنل ایڈز کانفرنس کے موقع پر دی گئیںتصویر: Reuters

یہ دوا گولیوں کی شکل میں مریضوں کو دی جا سکتی ہے۔ اس کے تجرباتی استعمال کی معلومات آسٹریلیا کے شہر میلبورن میں جاری بیسویں انٹرنیشنل ایڈز کانفرنس میں پیش کی گئیں۔ تجرباتی استعمال میں اسے پہلے سے رائج دواؤں کے مقابلے میں پرکھا گیا۔ اس دوا کی آزمائش کے لیے جنوبی افریقہ سے دو سو سات مریضوں نے خود کو رضاکارانہ طور پر پیش کیا۔ ان میں سے ہر پانچواں مریض ایچ آئی وی کا بھی شکار تھا۔ ان میں سے چھبیس مریض (ایم ڈی آر) ایسے تھے جن پر پہلے سے رائج دواؤں نے اثر کرنا چھوڑ دیا تھا۔

آزمائشی علاج کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی کہ اکہتر فیصد افراد کو دو ماہ کے عرصے میں ٹی بی کے بیکٹیریا سے نجات مل گئی۔ اس کے مقابلے میں روایتی دواؤں کے نتیجے میں اس عرصے کے دوران محض اڑتیس فیصد افراد کو فائدہ پہنچا۔ ایم ڈی آر مریضوں کو چار سے چھ ماہ میں افاقہ ہوا جبکہ ان میں روایتی دواؤں کے اثرات دو برس میں آتے دکھائی دیتے ہیں۔

ٹی بی الائنس کا کہنا ہے: ’’ایڈز کے باعث ہونے والی ہلاکتوں میں سے ہر پانچویں ہلاکت کی وجہ ٹی بی ہے، یوں تپِ دق ایڈز میں مبتلا افراد کی سب سے بڑی قاتل ہے۔ اس کے باوجود منفی اثرات کی وجہ سے ٹی بی اور ایڈز کی تھراپی ایک ساتھ نہیں کی جا سکتی جس کی وجہ سے دونوں بیماریوں کا ایک ساتھ علاج مشکل ہے۔‘‘

ٹی بی الائنس کے سربراہ میل اسپیگلمین کا کہنا ہے کہ انہیں اس بات کی پروا نہیں کہ یہ دوائیں منظور شدہ ہیں یا نہیں، یہ نئی ہیں یا پرانی۔ انہوں نے کہا کہ وہ صرف اس بات پر توجہ دے رہے ہیں کہ علاج کے لیے بہتر کونسی دوا ہے اور ان کے سامنے مقصد یہ ہے کہ تھراپی کو آسان اور تیز تر کیسے بنایا جائے۔

اقوام متحدہ کے ادارے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق دُنیا بھر میں ایچ آئی وی ایڈز میں مبتلا تقریباﹰ پینتیس ملین افراد کا ایک تہائی ٹی بی کا بھی شکار ہے۔