1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آخری سرحدی گزرگاہ بھی شامی دستوں کے ہاتھ سے گئی

مقبول ملک22 مئی 2015

عسکریت پسند تنظیم اسلامک اسٹیٹ کے جنگجوؤں نے شام میں ایک اور صوبائی دارالحکومت کے علاوہ شام اور عراق کی درمیانی سرحد پر اس آخری گزرگاہ کا کنٹرول بھی حاصل کر لیا ہے جو اب تک دمشق حکومت کے دستوں کے قبضے میں تھی۔

https://p.dw.com/p/1FUGa
تصویر: picture-alliance/abaca

دمشق سے موصولہ نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق شام اور عراق کے وسیع تر علاقوں پر قابض دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ یا داعش کے جنگجو ابھی تک اپنی وہ کارروائیاں اور عسکری پیش قدمی جاری رکھے ہوئے ہیں، جن کے نتیجے میں اس شدت پسند تنظیم کے خلاف امریکا کی موجودہ حکمت عملی کو شدید دھچکے لگے ہیں۔ ابھی کل جمعرات کے روز ہی شام کے انتہائی قدیم شہر پالمیرا اور وہاں موجود تاریخی باقیات پر اپنے مکمل قبضے کا دعوٰی کرنے والی تنظیم اسلامک اسٹیٹ نے آج جمعہ بائیس مئی کے روز نہ صرف ایک اور شامی صوبائی دارالحکومت پر قبضہ کر لیا بلکہ دمشق سے بغداد جانے والی شاہراہ پر ایک انتہائی اہم سرحدی گزرگاہ بھی اب ان عسکریت پسندوں کے کنٹرول میں چلی گئی ہے۔

اے ایف پی کے مطابق عسکری حوالے سے یہ اس لیے ایک بہت بڑی پیش رفت ہے کہ اب شام اور عراق کی مشترکہ سرحد پر کوئی ایک بھی ایسی گزرگاہ باقی نہیں بچی جو شامی صدر بشار الاسد کی حامی فورسز کے کنٹرول میں ہو۔

اے ایف پی نے لکھا ہے کہ آئی ایس کے جہادی، جو اب تک عراق کے وسیع تر علاقوں کے علاوہ شام کے ریاستی علاقے کے کم از کم نصف حصے پر قابض ہو چکے ہیں، اپنی نام نہاد ’خلافت‘ کی جغرافیائی توسیع کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں اور شام میں الطنف اور عراق میں الولید کے درمیان ہائی وے پر قائم بارڈر کراسنگ پر قبضہ ان کے حوصلوں کو مزید بلند کرے گا۔

دمشق حکومت کو اس قبضے کے ساتھ لگنے والے اسٹریٹیجک دھچکے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اب شام اور عراق کی درمیانی سرحد کے شمال میں واقع ایک چھوٹے سے حصے کو چھوڑ کر، جو کرد جنگجوؤں کے قبضے میں ہے، دونوں ہمسایہ ملکوں کے درمیان پورا سرحدی علاقہ اب داعش کے کنٹرول میں ہے۔

شام اور عراق میں اسلامک اسٹیٹ کے خلاف امریکا کی قیادت میں قریب آٹھ ماہ قبل اپنے فضائی حملے شروع کرنے والے عسکری اتحاد اور بغداد میں عراقی حکومت کے لیے تشویش کی بات یہ ہے کہ جس وقت داعش کے جنگجوؤں نے شام میں پالمیرا کے قدیم شہر پر قبضہ کیا، اس سے کچھ ہی پہلے وہ عراقی صوبے انبار کے دارالحکومت رمادی پر بھی قابض ہو گئے تھے۔

اس پس منظر میں داعش کے قبضے میں آنے والے نئے شامی اور عراقی شہروں سے ہزار ہا عام شہریوں نے اپنی جانیں بچانے کے لیے وہاں سے نقل مکانی شروع کر دی ہے کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ پالمیرا اور الطنف میں بھی یہ جہادی وہی قتل و غارت اور لوٹ مار کریں گے جو وہ اس سے پہلے عراق کے مختلف قدیم شہروں پر اپنے قبضے کے بعد کر چکے ہیں۔

Karte IS Irak 25.05.2015 Englisch

جنگ ہار نہیں رہے، اوباما

اے ایف پی نے اس بارے میں اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ اسلامک اسٹیٹ کی یہ مسلسل پیش قدمی کئی ماہرین کی طرف سے آئی ایس کے خلاف امریکی حکمت عملی کی ناکامی کے طور پر بھی دیکھی جا رہی ہے تاہم امریکی صدر باراک اوباما نے ایک ’اسٹریٹیجک نقصان‘ کے طور پر اس پیش قدمی کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ان خیالات کی تردید کی ہے کہ امریکی قیادت میں بین الاقوامی عسکری اتحاد اسلامک اسٹیٹ کے خلاف اپنی ’جنگ ہار رہا ہے‘۔

شامی اپوزیشن تنظیم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق آئی ایس کے جنگجو شام میں اب تک 95 ہزار مربع کلومیٹر یا 38 ہزار مربع میل سے زائد رقبے پر قابض ہو چکے ہیں اور یہ علاقہ شام کے مجموعی ریاستی رقبے کا نصف بنتا ہے۔

ادلب میں شامی دستوں کی پسپائی

لبنانی دارالحکومت بیروت سے آمدہ نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق شامی صوبے ادلب کے شہر جسر الشغور میں آج جمعے کے روز باغی اس مرکزی ہسپتال پر بھی قابض ہو گئے، جس کا انہوں نے دمشق حکومت کے دستوں کے کنٹرول میں ہونے کی وجہ سے اپریل کے آخر سے آج تک محاصرہ کر رکھا تھا۔

سیریئن آبزرویٹری کے مطابق یہ دمشق حکومت کو حال ہی میں پہنچنے والے بڑے عسکری دھچکوں میں سے ایک ہے اور جسر الشغور کے اس ہسپتال پر جن اسلام پسند جنگجوؤں نے بالآخر قبضہ کر لیا ہے، ان کا تعلق دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ کی حامی النصرہ فرنٹ سے ہے۔

اس بارے میں شام کے سرکاری ٹیلی وژن نے آج جو تفصیلات نشر کیں، ان میں دعوٰی کیا گیا کہ اسد حکومت کے دستے باغیوں کے محاصرے کو توڑتے ہوئے وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔ اے ایف پی نے لکھا ہے کہ اسی ہسپتال میں النصرہ فرنٹ کے جہادیوں نے ابھی تک درجنوں عام شہریوں اور کم از کم ڈیڑھ سو شامی فوجیوں کو یرغمال بنا رکھا ہے۔