آج ’محفوظ انٹرنیٹ کا عالمی دن‘ منایا جا رہا ہے
10 فروری 2015یہ عالمی دن ایک ایسی عالمگیر تحریک کے تحت منایا جاتا ہے، جس کا موٹو ہے: ’آئیے، مل کر ایک بہتر انٹرنیٹ کی تخلیق کریں۔‘‘ یہ دن ہر سال فروری کے دوسرے منگل کے روز منایا جاتا ہے اور یہ بین الاقوامی سطح پر کی جانے والی ان کوششوں کا حصہ ہے، جن کے تحت آن لائن ٹیکنالوجی اور موبائل فونز کے خاص کر دنیا بھر کے بچوں اور نوجوانوں کی طرف سے زیادہ ذمہ دارانہ استعمال کو رواج دینے کی کاوشیں کی جاتی ہیں۔
اس عالمی دن کو منانے کا سلسلہ گیارہ برس قبل شروع ہوا تھا۔ اس دن کا بنیادی پیغام یہ ہے کہ ’محفوظ‘ انٹرنیٹ ’زیادہ بہتر‘ انٹرنیٹ ہوتا ہے اور اب تک کے گیارہ برسوں کے دوران یہ بین الاقوامی تحریک نہ صرف 100 ملکوں میں انٹرنیٹ صارفین کی اکثریت کو اپنی اہمیت کا قائل کر چکی ہے بلکہ اس میں انٹرنیٹ انڈسٹری کے بہت سے ایسے عالمی ادارے بھی شامل ہو چکے ہیں جنہوں نے خود کو اس دن کے مقاصد کے حصول کے لیے تقریباﹰ وقف کر رکھا ہے۔
انٹرنیٹ کو بچوں کے لیے زیادہ محفوظ بنانے کی کوششیں کرنے والے اداروں میں عالمی سطح پر فعال انفارمیشن ٹیکنالوجی کی فیس بک، ٹویٹر، گوگل اور مائیکروسافٹ جیسی بہت سی کمپنیاں بھی شامل ہیں اور بہت سی غیر حکومتی تنظیموں کے علاوہ بہتر انٹرنیٹ کی وکالت کرنے والے متعدد سماجی ادارے بھی۔ ان سب اداروں اور محفوظ انٹرنیٹ کے لیے مالی تعاون کرنے والی تنظیموں نے اپنی ایک مشترکہ ویب سائٹ بھی بنا رکھی ہے، جس کا نام ہے: connectsafely.org
کسی منافع کے لالچ کے بغیر چلائی جانے والی اس ویب سائٹ کے شریک ڈائریکٹر لیری میگِڈ کہتے ہیں، ’’Safer Internet Day کے بارے میں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ تمام بڑی بڑی آئی ٹی کمپنیاں، جن کا کاروباری حوالے سے ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ سخت مقابلہ رہتا ہے، ایک دن کے لیے اپنے باہمی اختلافات کو ایک طرف رکھتے ہوئے صرف اس بات پر توجہ مرکوز کر دیتی ہیں کہ انٹرنیٹ کو زیادہ محفوظ کیسے بنایا جا سکتا ہے۔‘‘
اس سال اس عالمی دن کے موقع پر مشترکہ توجہ کا حامل پہلو یہ ہے کہ انٹرنیٹ پر تشدد کے حامل آن لائن مندرجات کی شیئرنگ کو کم یا ختم کیسے کیا جا سکتا ہے۔ ایسی پرتشدد معلومات کا تبادلہ زیادہ تر سوشل میڈیا نیٹ ورکس کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ امریکا میں ایسی معلومات اور آن لائن مندرجات زیادہ تر Silicon Valley میں فیس بک کے ہیڈکوارٹرز میں جمع کیے جاتے ہیں۔
ایسی معلومات اور پر تشدد مندرجات میں مثال کے طور پر عراق اور شام میں وسیع تر علاقوں پر قابض دہشت گرد گروپ اسلامک اسٹیٹ کی طرف سے جاری کیے گئے اس مواد کی وجہ سے بھی اضافہ ہوتا ہے، جس میں آئی ایس کے عسکریت پسندوں کی طرف سے ان کے زیر قبضہ یرغمالیوں کے سر قلم کیے جانے جیسے واقعات کو ویڈیو پر ریکارڈ کیا گیا ہوتا ہے۔
اس طرح کے پرتشدد مواد کو حاصل ہونے والی آن لائن توجہ کی وجہ سے یہ مطالبے بھی کیے جانے لگے تھے کہ ایسے مواد کی تشہیر اور شیئرنگ کو روکا جائے۔ اب تک فیس بک اور ٹویٹر کی طرف سے اس حوالے سے کمپنی پالیسیاں تبدیل کی جا چکی ہیں اور واضح پرتشدد مندرجات کو پوسٹ یا شیئر کرنا ممنوع قرار دیا جا چکا ہے۔
پرتشدد آن لائن مواد کے بارے میں برطانیہ کی ایک تنظیم چائلڈ نیٹ انٹرنیشنل کے چیف ایگزیکٹو وِل گارڈنر کہتے ہیں کہ مسئلہ یہ ہے کہ جب کوئی بچہ ایسا کوئی مواد دیکھ لیتا ہے، تو پھر اس کے ذہنی اور جذباتی تجربات میں سے ایسے کسی عمل کی نفی کا کوئی راستہ باقی نہیں بچتا۔
وِل گارڈنر، جو فیس بک کی مشاورتی کونسل کے رکن بھی ہیں، کہتے ہیں کہ اس بارے میں ایڈووکیسی گروپس کے مطالبے زیادہ سے زیادہ بلند آواز ہوتے جا رہے ہیں کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پرتشدد مندرجات کی تشہیر پر سرے سے پابندی لگائی جانا چاہیے۔ ’’لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ایسی کسی جامع پابندی کے لیے کافی ثابت ہو سکنے والا کوئی قانونی ڈھانچہ موجود ہی نہیں۔‘‘