1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یہودی، مسلم شادی: اسرائیل میں تناؤ کا ماحول

عاطف توقیر19 اگست 2014

مسلمان لڑکے محمود اور یہودی لڑکی موریل نے یہ کبھی نہ سوچا ہو گا کہ ان کی شادی کا انتہائی پرمسرت دن، نسل پرستوں اور شدت پسندوں کے تعصب اور نفرت انگیز نعروں کی نذر ہو جائے گا۔

https://p.dw.com/p/1CwiS
تصویر: Reuters

اتوار کی شب اسرائیلی شہر تل ابیب میں یہودی لڑکی موریل کی مسلم لڑکے محمود سے رسم نکاح تھی، تاہم اسرائیل کے دائیں بازوں کے شدت پسند گروہ نے اس موقع پر اس بین المذہبی شادی کے خلاف مظاہرہ کیا اور نعرے بازی کی۔ اس لیہاوا کہلانے والے اس مظاہرے میں سیکنڑوں نوجوان شریک تھے، جو نہایت نفرت انگیز نعرے لگا رہے تھے۔

Israel Hochzeit zwischen Moslem und Jüdin 17.8.2014
تصویر: Reuters

ٹی شرٹس میں ملبوس، نسل پرستانہ نعرے لگاتے اور غزہ میں کئی ہفتوں تک جاری رہنے والی جنگ کا حوالہ دیتے ان مظاہرین اور ایک سو پولیس اہلکاروں کے درمیان اس شادی کے موقع پر آنکھ مچولی جاری رہی۔ پولیس کی کوشش تھی کہ یہ افراد اس جوڑے اور ان کے مہمانوں کی توہین اور ان کے ساتھ بدتمیزی سے باز رہیں۔اس موقع پر اس شادی کے حق میں بھی نوجوانوں کی جانب سے ایک مظاہرہ کیا گیا، جنہوں نے ہاتھوں میں پھول اٹھا رکھے تھے۔ یہ افراد ’محبت فاتح عالم‘ اور ’یہودی و مسلمان دشمنی کو مسترد کرتے ہیں‘ جیسے نعرے لگا رہے تھے۔

تاہم نفرت کے پرچاری دائیں بازو کے شدت پسند گروہ کے دوسرے گروہ کی جانب سے اسرائیلی پرچموں کے ہمراہ ’عرب مردہ باد‘ کے نعرے بھی بلند ہوتے رہے۔ اس موقع پر پولیس کی کوشش یہ بھی تھی کہ کہیں ان دونوں گروہوں کے درمیان ٹکراؤ نہ شروع ہو جائے۔

اس 26 سالہ نوجوان لڑکے اور 23 سالہ لڑکی کے درمیان محبت کا آغاز پانچ برس قبل شروع ہوا تھا۔ محمود منصور ایک بزنس مین ہیں اور پانچ برس قبل ان کی ملاقات یہودی لڑکی موریل ملکہ سے ہوئی تھی۔ شادی سے قبل موریل ملکہ نے اسلام قبول کیا اور دونوں رشتہ ازدواج میں بندھ گئے، تاہم یہ شادی اسرائیلی میڈیا میں شہ سرخیوں کا باعث بھی بنی۔ ان دونوں کو معلوم تھا کہ شادی دونوں خاندانوں کے درمیان تلخی اور کشیدگی کا باعث بنے گی، تاہم اس شادی کے اثرات معاشرتی سطح پر اس قدر شدید ہوں گے، یہ شاید اس جوڑے نے کبھی نہ سوچا ہو۔

اس ردعمل کی شدت میں اضافے کی ایک وجہ گزشتہ کئی ماہ سے اسرائیل اور غزہ کے درمیان جاری جنگ بھی بنی۔ اس جوڑے سے ایک غلطی یہ بھی ہوئی کہ انہوں نے اس شادی کی پیشگی اطلاعات اپنے فیس بک پیجز پر لکھ ڈالیں اور یوں یہ خبر زباں زد عام ہوئی اور مختلف گروہوں کی جانب سے لیہاوا مظاہرے کی کال دی جانےلگی۔

شادی کی اس تقریب سے چند لمحے پہلے محمود کا کہنا تھا، ’’ہمیں کوئی جدا نہیں کر سکتا۔ ہماری شادی بہت اچھی رہے گی، اتنی اچھی، جس کا صرف تصور کیا جا سکتا ہے۔‘‘