1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یوکرائن کی اقتصادی مشکلات

عابد حسین5 اپریل 2014

روس کی جانب سے یوکرائن کو فراہم کی جانے والی گیس کی قیمتوں میں ماسکو حکومت نے 80 فیصد اضافہ کر دیا ہے۔ اس اقدام کو امریکا نے روس کی جانب سے یوکرائن کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1BcMN
تصویر: Reuters

روس کی جانب سے گیس کی قیمتوں میں اضافے کے بعد یوکرائن کی عبوری حکومت نے اپنے ہمسایہ ملکوں کے ساتھ قدرتی گیس کی امپورٹ کے حوالے سے بات چیت کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ اس بات چیت کے سلسلے کی تصدیق عبوری وزیراعظم آرسینی یاٹسینی یُک نے بھی کر دی ہے۔ یاٹسینی یُک نے بات چیت کے اس عمل کو’’ایمرجنسی‘‘ کی صورت حال قرار دیا ہے۔

اس وقت روس کی گیس کے بڑے خریدار سلوواکیہ، پولینڈ اور ہنگری ہیں۔ یوکرائنی وزیراعظم کا کہنا ہے کہ ایک امکان یہ ہے کہ گیس کے بہاؤ کو موڑ دیا جائے یعنی کسی بھی ملک سے گیس کی ترسیل یوکرائن کو کر دی جائے۔ یوکرائن میں توانائی کی نصف ضروریات روس سے امپورٹ کی جانے والی قدرتی گیس سے پوری کی جاتی ہیں۔ یوکرائن ایک طرح سے اقتصادی بحران کے بعد اب توانائی کی پریشانی کا سامنا کر رہا ہے۔

Boykott der russischen Waren in der Ukraine
یوکرائنی عوام روسی مال کا بائیکاٹ کرنے کی کوشش میں بھی ہیںتصویر: DW/L. Rzheutska

روس کی جانب سے گیس کی قیمت میں اضافے کو عبوری وزیراعظم یاٹسینی یُک نے ناقابلِ قبول قرار دیا ہے۔ یاٹسینی یُک کے مطابق اگر اِس قیمت پر گیس حاصل کی جاتی ہے تو ملکی اقتصادیات کا مزید کباڑا ہو جائے گا اور ملکی قرضے کا حجم بہت زیادہ ہو جائے گا۔ یوکرائن کے وزیر توانائی یوری پروڈان نے بتایا کہ کییف حکومت سلوواکیہ سے گیس امپورٹ کرنے کی خواہش رکھتی ہے لیکن سلوواکیہ کی گیس کمپنی نے گیس فراہم کرنے سے انکار کردیا ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر روس کے سرکاری ادارے گیزوپروم کی جانب سے سپلائی روک دی جاتی ہے تو وہ امکاناً دوسرے یورپی ملکوں سے اپنی ضروری پوری کرنے کی کوشش کر سکتا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ یورپی یونین کی ایک تہائی گیس کی ضروریات روس سے امپورٹ شدہ گیس سے پوری کی جاتی ہے۔

روس کی جانب سے یوکرائن کو فراہم کرنے والی گیس کی قیمتوں میں 80 فیصد اضافے کا اعلان چند روز قبل کیا گیا ہے۔ گیس قیمتوں میں اضافے پر امریکی حکومت نے روسی فیصلے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے تنقید کی ہے۔ وائٹ ہاؤس کے ترجمان جے کارنی کا کہنا ہے کہ کسی بھی ملک کو دوسرے ملک کو دی جانے والے اشیا کی قیمت بڑھانا جبر کے زمرے میں آتا ہے اور یہ بھی یوکرائن کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے مساوی ہے۔

Krim - McDonald´s
امریکی فاسٹ فوڈ چین میک ڈانلڈز نے کریمیا میں اپنے ریسٹورانٹ بند کر دیے ہیںتصویر: DW/M. Filimonow

یوکرائن کو اندرون ملک سیاسی خلفشار کا سامنا ہے اور اِس کے ساتھ ساتھ اقتصادیات مسلسل رو بہ زوال ہے۔ امریکا، یورپی یونین اور انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کی جانب سے اربوں ڈالر کی امداد کا عمل آگے بڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔ ممالک کی کریڈٹ ریٹنگ پر نگاہ رکھنے والی بین الاقوامی ایجنسی مُوڈیز نے یوکرائن کی موجودہ صورت حال دیکھتے ہوئے اُس کی معاشی آؤٹ لُک کو منفی قرار دے دیا ہے۔ موڈیز کے مطابق سیاسی بحران مسلسل گہرا ہوتا دکھائی دے رہے اور اس کی وجہ سے ملکی معیشت زوال پذیر ہے۔ موڈیز نے یوکرائن کی اقتصادی صورت حال کو بہت نازک قرار دیا ہے۔

امریکی فاسٹ فوڈ چین میک ڈانلڈز نے روس میں ضم ہو جانے والے یوکرائنی علاقے کریمیا میں اپنے ریسٹورانٹ بند کر دیے ہیں۔ بند کر دیے جانے والے فاسٹ فوڈ ریسٹورانٹس کریمیا کے شہروں سیمفروپول، سیواسٹوپول اور یالٹا میں تھے۔ میک ڈانلڈز کی جانب سے کہا گیا کہ مجموعی حالات ایسے ہیں کہ ریسٹورانٹ کے کاروبار کو سردست آگے بڑھانا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ اس اعلان کے بعد ایسا دکھائی دیتا ہے کہ امریکی فاسٹ فوڈ چین کو اندرون روس میں بھی مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ کئی روسی سیاستدانوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ روس میں میکڈانلڈز کے ریستورانوں کو بند کر دیا جائے۔۔ یہ امر اہم ہے کہ روس کے وسیع و عریض علاقے میں میک ڈانلڈز فاسٹ فوڈ چین کی چار سو سے زائد شاخیں ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید