1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یوکرائن: طیارے کی تباہی اور الزامات کا تبادلہ

امجد علی19 جولائی 2014

ملائیشیا ایئر لائنز کے ایک طیارے کو، جس پر 298 افراد سوار تھے، جمعرات کو یوکرائن کی فضاؤں میں مار گرایا گیا تھا۔ مغربی دنیا بالواسطہ طور پر روس کو جبکہ روس یوکرائن کی حکومت کو اس واقعے کے لیے قصور وار قرار دے رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/1CfYD
تصویر: Reuters

ملائیشیا سمیت مختلف ممالک سے تحقیقاتی ٹیمیں اس طیارے کی تباہی کے اسباب جانچنے کے لیے یوکرائن پہنچ رہی ہیں۔ آج ہفتے کے روز ملائیشیا سے فضائی حادثات کی تحقیقات کرنے والے دو ماہرین پر مشتمل ایک ٹیم یوکرائن کے دارالحکومت کییف پہنچ گئی۔ دو ہی ماہرین جرمنی بھی روانہ کر رہا ہے۔ برطانیہ سے فضائی حادثات کے چھ ماہرین آج یوکرائن پہنچ رہے ہیں، جو لاشوں کی تلاش، شناخت اور اُنہیں اُن کے آبائی ملکوں میں بھیجنے کے سلسلے میں مدد دیں گے۔ طیارے کا ملبہ پچیس مربع کلومیٹر کے علاقے میں پھیلا ہوا ہے۔ تقریباً 170 امدادی کارکن جائے حادثہ پر سرگرم عمل ہیں اور 298 میں سے اب تک 186 لاشیں برآمد کی جا چکی ہیں۔

جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے ہفتہ 19 جولائی کو فون پر اپنی بات چیت میں فضائی سفر کی بین الاقوامی تنظیم ICAO کی قیادت میں ایک کمیشن کو طیارے کی تباہی کے مقام تک جلد از جلد رسائی دیے جانے پر اتفاق کیا
جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے ہفتہ 19 جولائی کو فون پر اپنی بات چیت میں فضائی سفر کی بین الاقوامی تنظیم ICAO کی قیادت میں ایک کمیشن کو طیارے کی تباہی کے مقام تک جلد از جلد رسائی دیے جانے پر اتفاق کیاتصویر: Reuters

ایک روز قبل امریکی صدر باراک اوباما نے اس طیارے کی تباہی کے لیے روس کو بالواسطہ طور پر قصور وار قرار دیتے ہوئے کہا تھا:’’شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ طیارے کو زمین سے فضا میں مار کرنے والے ایک ایسے میزائل سے مار گرایا گیا، جو یوکرائن کی سرحدوں کے اندر روس نواز علیحدگی پسندوں کے زیر کنٹرول علاقے سے فائر کیا گیا تھا۔‘‘

روس نے طیارے کی تباہی میں کسی بھی طرح سے ملوث ہونے کے بالواسطہ الزام کی سختی سے تردید کی ہے اور کہا ہے کہ اس طیارے کی تباہی کی ذمے دار یوکرائن کی حکومت ہے۔

اقوام متحدہ کی عالمی سلامتی کونسل کے ایک ہنگامی اجلاس میں کل جمعے کو مطالبہ کیا گیا کہ طیارے کی تباہی کے اس المناک واقعے کی جامع اور غیر جانبدارانہ تحقیقات ہونی چاہییں۔ سلامتی کونسل کے اس اجلاس میں اقوام متحدہ میں متعینہ برطانوی سفیر لائل گرانٹ نے کہا:’’ہم آج روس سے ان مسلح گروپوں کی واضح مذمت سننا چاہتے ہیں۔‘‘

جس جگہ طیارے کا ملبہ پچیس مربع کلومیٹر کے علاقے میں پھیلا ہوا ہے، وہ علاقہ مشرقی یوکرائن کے روس نواز باغیوں کے کے نٹرول میں ہے
جس جگہ طیارے کا ملبہ پچیس مربع کلومیٹر کے علاقے میں پھیلا ہوا ہے، وہ علاقہ مشرقی یوکرائن کے روس نواز باغیوں کے کے نٹرول میں ہے

تاہم اس اجلاس میں موجود روسی سفیر وطالی چُرکین خاموش ہی رہے۔ طیارے میں مرنے والے 298 افراد میں سے 192 ہالینڈ کے شہری تھے۔ اقوام متحدہ میں ہالینڈ کے سفیر نے سلامتی کونسل کے اجلاس میں کہا:’’یہ ہماری تاریخ کا ایک تاریک لمحہ ہے۔ ہماری قوم کو ایک بڑا دھچکا لگا ہے اور وہ آنسوؤں میں ڈوبی ہوئی ہے۔‘‘

آج طیارے کی تباہی ہی کے موضوع پر جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے ساتھ فون پر بات چیت کی۔ دونوں رہنماؤں نے اس امر پر اتفاق کیا کہ فضائی سفر کی بین الاقوامی تنظیم ICAO کی قیادت میں ایک کمیشن کو طیارے کی تباہی کے مقام تک جلد از جلد رسائی دی جانی چاہیے۔ تاہم یوکرائن کی حکومت کے ساتھ ساتھ یورپ میں سلامتی و تعاون کی تنظیم او ایس سی ای کا بھی کہنا یہ ہے کہ جس جگہ طیارہ گرا ہے، وہ علاقہ مشرقی یوکرائن کے روس نواز باغیوں کے کنٹرول میں ہے اور وہ تحقیقات میں بڑے پیمانے پر رکاوٹیں ڈال رہے ہیں۔ کییف حکومت کے مطابق باغی نہ صرف بہت سی لاشیں بلکہ طیارے کے ملبے کے کئی ٹکڑے بھی اٹھا کر اپنے ساتھ لے جا رہے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ شہادتیں ضائع کر سکیں۔