یونان میں عام انتخابات، ووٹنگ جاری
24 جنوری 2015رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق ان انتخابات میں بائیں بازو کی جماعت سیریزا کی کامیابی کے واضح امکانات ہیں۔ یہ جماعت یورپی یونین کی جانب سے یونان کو دیے گئے قرضوں کے تبادلے میں بچتی اقدامات کے خلاف ہے۔ ان انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے لیے نو اعشاریہ آٹھ ملین یونانی اہل قرار دیے گئے ہیں۔ انتخابات میں سیریزا کی کامیابی یورپی یونین کے اس رکن ملک کی یونین سے اخراج کا سبب بھی بن سکتی ہے۔
پارلیمانی انتخابات کے نتیجے کا یونانیوں کو تو یقینی طور پر انتظار ہو گا لیکن سارا یورپ بھی اِن الیکشن کے نتائج پر نگاہیں جمائے بیٹھا ہے۔ الیکشن میں سیاسی مقابلہ بائیں بازو کی جماعتوں کے اتحاد سیریزا اور قدامت پسند جماعت نیو ڈیموکریٹک پارٹی کے درمیان ہے۔ سیریزا کی قیادت نوجوان سیاستدان الیکسی سِپراس کر رہے ہیں جبکہ قدامت پسند سیاسی پارٹی کے لیڈر وزیراعظم انتونِس ساماراس ہیں۔ رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق سِپراس کی پارٹی کو ساماراس کی جماعت پر چار واضح پوائنٹ کی برتری حاصل ہے۔
جمعے کے روز انتخابی مہم کے اختتامی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے الیکسی سپراس کا کہنا تھا کہ وہ یونان کے وقار کو بحال کرنے کے متمنی ہیں۔ دوسری جانب یورپ میں یہ احساس پایا جاتا ہے کہ سِپراس کی کامیابی سے یورو زون میں دراڑ پڑ سکتی ہے اور بائیں بازو کے تحت بننے والی نئی حکومت مالیاتی پیکج کی شرائط سے انکاری بھی ہو سکتی ہے۔ سِپراس کا بار بار کہنا ہے کہ وہ یونان کو دیے گئے 318 بلین یورو کی مالیاتی امداد پر نئے سرے سے بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔ وہ یہ بھی واضح کر چکے ہیں کہ وہ اُن پارٹیوں کے ساتھ حکومتی اتحاد قائم نہیں کریں گے جو جرمن چانسلر میرکل کی حامی ہیں۔
وزیراعظم انتونِس ساماراس کا اپنے حامیوں سے کہنا تھا کہ یہ انتہائی نامناسب ہو گا اگر یونانی عوام نے سیریزا کے حق میں ووٹ ڈالا۔ ساماراس کا یہ بھی کہنا تھا کہ مالیاتی پیکج کے تحت جن بچتی اقدامات کو عملی شکل دی جا چکی ہے، اب اُن کے ثمرآور ہونے کا وقت آ گیا ہے اور ایسے میں سیریزا کی کامیابی سب کچھ تبدیل کر کے رکھ دے گی۔ ساماراس نے یہ بھی کہا کہ بائیں بازو کی سیاسی جماعت یورپ پر نہ اعتبار کرتی ہے اور نہ ہی اِسے سمجھتی ہے اور اِن کی کامیابی سے سارا یورپ یونان کا مخالف ہو سکتا ہے۔
دوسری جانب یونان میں مالیاتی بحران کے بعد حکومت کی جانب سے سخت شرائط کے ساتھ کفایت شعاری کی پالیسی کو متعارف کروایا گیا ہے۔ کئی ملازمتوں کے مواقع ختم کر دیے گئے ہیں۔ مراعات و پینشن میں کٹوتیاں کی جا چکی ہیں۔ شرح بیروزگاری پچیس فیصد تک پہنچ چکی ہے۔