1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یمنی تنازعہ: پاکستانی موقف کی قیمت بھاری ہو گی، یو اے ای

11 اپریل 2015

متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے وزیر برائے خارجہ امور انور محمد نے یمن کے تنازعے پر پاکستان اور ترکی کے موقف پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ عرب خطے کی حفاظت کی ذمہ داری صرف عربوں ہی کی ہے۔

https://p.dw.com/p/1F6Il
Pakistani media and security personnel gather outside the parliament house building in Islamabad on June 1, 2013. Pakistan's new parliament was sworn-in on June 1, completing the country's first-ever democratic transition of power in a country ruled for half its history by the military. AFP PHOTO / AAMIR QURESHI
تصویر: AAMIR QURESHI/AFP/Getty Images

انہوں نے پاکستان کو تنبیہہ کرتے ہوئے کہا کہ اس موقف کی اسلام آباد کو بھاری قیمت چکانا ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد چھ عرب ریاستوں پر مشتمل خلیجی تعاون کونسل کے ساتھ اپنے اسٹریٹیجک تعاون کے حق میں واضح موقف اختیار کرے۔

جمعہ دس اپریل کو اسلام آباد میں پاکستانی پارلیمان کے ایوان زیریں اور ایوان بالا کے کئی دنوں تک جاری رہنے والے مشترکہ اجلاس میں پاکستانی قانون سازوں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ یمن میں جاری تنازعے میں ان کا ملک فریق نہیں بنے گا اور غیر جانب دارانہ پالیسی اختیار کرے گا۔

چھبیس مارچ سے سعودی عرب کی قیادت میں ایک بین الاقوامی عسکری اتحاد یمن میں حوثی شیعہ باغیوں کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کر رہا ہے۔ حوثی باغی دارالحکومت صنعاء اور جنوبی بندرگاہی شہر عدن سمیت ملک کے کئی شہروں پر قابض ہو چکے ہیں۔ بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ ملکی صدر عبدربہ منصور ہادی سعودی دارالحکومت ریاض میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ سعودی عرب کا الزام ہے کہ ایران ان حوثی شیعہ باغیوں کو مدد فراہم کر رہا ہے۔

جمعے کے روز انگریزی اخبار ’خلیج ٹائمز‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں یو اے ای کے وزیر خارجہ ڈاکٹر انور محمد نے کہا کہ پاکستان اور ترکی کا مبہم اور متضاد موقف اس بات کا ثبوت ہے کہ لیبیا سے لے کر یمن تک عرب ممالک کی سلامتی میں کوئی اور مسلمان ملک عربوں کی مدد نہیں کرے گا۔

انور محمد کا مزید کہنا تھا: ’’عرب خلیجی خطہ خطرناک کشمکش کا شکار ہے، اور اس کی اسٹریٹیجک سلامتی داؤ پر لگی ہے۔ اس وقت یہ طے ہو رہا ہے کہ کون ہمارا حقیقی اتحادی ہے اور کون ذرائع ابلاغ اور صرف بیان بازی کی حد تک حلیف ہے۔‘‘

’ایران کی حمایت‘

متحدہ عرب امارات نے پاکستانی پارلیمان کی قرارداد پر تبصرہ کرتے ہوئے یہاں تک کہہ ڈالا کہ یہ قرارداد عرب ممالک کے مقابلے میں ایران کی حمایت کے مترادف ہے۔ ’’اسلام آباد اور انقرہ کے لیے تہران خلیجی ممالک سے زیادہ اہمیت کا حامل دکھائی دیتا ہے۔‘‘

یو اے ای کے وزیر خارجہ نے ’خلیج ٹائمز‘ سے بات کرتے ہوئے مزید کہا، ’’گو کہ ہمارا اقتصادی تعاون ناگزیر ہے، تاہم نازک موقع پر سیاسی حمایت نظر نہیں آ رہی۔‘‘

خیال رہے کہ پاکستانی پارلیمنٹ کی جانب سے منظور کردہ قرارداد میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یمن کے تنازعے کے حل کے لیے اسلام آباد تہران اور ریاض کے درمیان مکالمت کے آغاز کے لیے مدد فراہم کرے گا۔

shs/mm

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید