1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یمنی تنازعہ، قرارداد کے بعد بھی پاکستانی معاشرہ شش و پنج میں

شکور رحیم، اسلام آباد14 اپریل 2015

یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف فوج بھجوانے کے معاملے پر پاکستانی حکومت کی طرح عوام بھی الجھاؤ کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1F7tW
تصویر: Reuters/F. Mahmood

سعودی عرب کی جانب سے حوثی باغیوں کے خلاف پاکستان سے بری، بحری اور فضائی فوجی تعاون طلب کرنے پر عوام کی نمائندہ پارلیمنٹ متفقہ قرارداد کے ذریعے اس معاملے میں غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ دے چکی ہے۔ اس کے باوجود یمن فوج بھجوانے یا نہ بھجوانے کے معاملے پر پاکستانی معاشرے میں کنفیوژن کیوں پائی جاتی ہے؟ اس سوال کے جواب میں تجزیہ کار عامر رانا کا کہنا ہے کہ یمن کے معاملے کو بظاہر جتنا بھی فرقہ واریت سے دور رکھنے کی کوشش کی جائے، بہرحال اس کا ایک فرقہ وارانہ پس منظر موجود ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’پاکستانی حکومت یا لوگوں میں جو کنفیوژن ہے وہ اسی فرقہ وارانہ پس منظر کے ساتھ ہے۔ حکومت کے لئے آسان نہیں کہ وہ موجودہ پوزیشن میں کوئی ایسا فیصلہ کر لے جو پاکستان کے اندر فرقہ واریت کو ہوا دے۔ نہ تو ملٹری اور نہ ہی سویلین لیڈرشپ یہ چاہے گی کہ ملک کے اندر فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی فضاء خراب ہو۔‘‘

انہوں نے کہاکہ دوسری طرف خلیجی ممالک پاکستان کے ساتھ دیرینہ تعلقات کی وجہ سے اس کی مؤثر دفاعی قوت کا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ عامر رانا کے بقول خلیجی ممالک کو بھی یہ بات سمھجنی ہوگی کہ یمن میں فوج بھیجنے سے پاکستان کے لیے داخلی سلامتی کے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔

پاکستان علماء کونسل کے چئرمین حافظ طاہر اشرفی کا کہنا ہے کہ یمن کے بحران پر پارلیمنٹ کی متفقہ قرارداد اور پھر حکومتی مؤقف دونوں ہی مبہم ہیں جس کی وجہ سے عوام کے ذہنوں میں بھی الجھاؤ پیدا ہو رہا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’قرارداد میں ایک طرف غیر جانبداری کی بات کی جارہی ہے اور دوسری طرف سعودی سلامتی کو خطرہ لاحق ہونے پر سخت ردعمل کی بات کی گئی ہے تو یہ کیا ہے ؟حکومت کو چاہیے تھا کہ واضح طور پر کہتی کہ اگر حوثیوں نے سعودی عرب پر حملہ نہ کیا تو ہم جنگ میں حصہ نہیں لیں گے اور اگر انہوں نے سعودی عرب پر حملہ کیا تو پھر حوثیوں کے خلاف جنگ میں پاکستانی فوج شامل ہو گی۔‘‘

انہوں نے کہا کہ حکومت کا مؤقف واضح نہ ہونے کی وجہ سے ہی خلیجی ممالک کی حکومتوں اور عوام میں بھی پاکستان کے کردار پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔

یمن کے حالیہ بحران میں بعض مذہبی جماعتوں کی جانب سے یہاں تک بھی کہا گیا کہ اگر حکومت فوج نہیں بھجواتی تو وہ خود مقدس مقامات خاص طور پر حرمین شریفین کے تحفظ کے لئے سعودی عرب جائیں گے۔ ایک سخت گیر اسلامی معاشرہ ہونے کی وجہ سے مذہبی جماعیتں اور ان کے راہنما بھی اپنے خاص اہداف اور ایجنڈے کے تحت کنفیوژن پھیلاتے ہیں۔اس بحران کے دوران بھی روایتی طور پر سعودی عرب کے قریب سمجی جانے والی مذہبی جماعتوں نے فوج بھجوانے کی بڑھ چڑھ کر حمایت کی جب کہ ایران پسند جماعتوں نے یمن فوج بجھوانے کے فیصلےکی بڑھ چڑھ کر مخالفت کی۔

عامر رانا کا کہنا ہے کہ فرقہ وارانہ اور عسکری پس منظر رکھنے والی تنظیمیں ایسے موقعوں کی تلاش میں ہوتی ہیں جب وہ اپنی حمایت کو متحرک کر سکیں۔ انہوں نےکہا کہ ’’پاکستان میں قومی انسداد دہشت گردی پلان کے نفاذ کے بعد سے سخت گیر مذہبی تنظیمیں، شدت پسندی اور فرقہ وارانہ پس منظر رکھنے والی جماعیتں دباؤ میں تھیں اور اب وہ کوشش کرر ہی ہیں کہ یمن کے معاملے پر اپنی لئے جگہ بنائیں۔‘‘

پاکستان آئے ہوئے سعودی عرب کے وزیر برائے مذہبی امور صالح بن عبدالعزیز کے دورے کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔انہوں نے گزشتہ روز جمیعت علماء اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کی تھی۔ ذرائع کے مطابق سعودی وزیر کے دورے کا مقصد یمن کے معاملے پر مذہبی جماعتوں سے پاکستان میں رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لئے تعاون حاصل کرنا تھا۔

پاکستان میں سرکاری سطح پر نہ سہی لیکن عوامی سطح پر ایسے خدشات کا اظہار بھی کیا جارہا ہے کہ اگر پاکستان نے یمن کے معاملے پر سعودی عرب کا مطالبہ تسلیم نہ کیا تو خلیجی ممالک سے میں روزگار سے وابستہ لاکھوں پاکستانیوں کا مستقبل داؤ پر لگ سکتا ہے۔ متحدہ عرب امارات کے ایک وزیر کے حالیہ بیان کو بھی اسی پس منظر میں دیکھا جارہا ہے۔اماراتی وزیر نے یمن کے معاملے پر مبہم مؤقف اپنانے پر پاکستان کو بھاری قیمت چکانے کی دھمکی دی تھی۔

خیال رہے کہ بیرون ملک کسی بھی ملک میں پاکستانیوں کی سب سے بڑی تعداد یعنی بیس لاکھ پاکستانی سعودی عرب میں مقیم ہیں۔ تاہم پاکستان میں سوشل میڈیا پر بعض افراد یہ سوال بھی اٹھا رہے ہیں کہ اگر اس وجہ سے پاکستانیوں کے روزگار کو خطرہ ہو سکتا ہے تو پھر خلیجی ممالک پاکستان کے ہمسایہ ممالک بھارت اور بنگلہ دیش سے کیوں فوج نہیں مانگتے کیوں کہ ان دونوں ممالک کے شہریوں کی بھی ایک بڑی تعداد روزگار کے سلسلے میں خلیجی ممالک میں مقیم ہے۔

علامہ طاہر اشرفی کا کہنا ہے کہ اگر پاکستانی حکومت چاہتی ہے کہ یمن کے بحران پر اندرون ملک پائی جانے والی کنفیوژن ختم ہو تو اسے ایک واضح اور ٹھوس قومی مؤقف اپنانا ہوگا۔