1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہمیں واپس بھیجا جائے، شمالی وزیرستان کے مہاجرین کا مطالبہ

فرید اللہ خان، پشاور16 مارچ 2015

پاکستانی قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشن کی وجہ سے بےگھر ہو جانے والے ہزار ہا افراد نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت انہیں ان کے آبائی علاقوں میں واپسی کی اجازت دے۔

https://p.dw.com/p/1ErgC
تصویر: DW/F. Khan

ان مہاجرین نے اپنے گھروں کو واپسی کا مطالبہ کرتے ہوئے آج پیر سولہ مارچ کے روز ایک بڑا احتجاجی مظاہرہ بھی کیا، جس دوران صوبہ خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع میں رہائش پذیر یہ باشندے پشاور کے ورسک روڈ پر واقع فاٹا سیکریٹریٹ کے سامنے جمع ہوئے اور انہوں نے اس سڑک کو کئی گھنٹے تک ٹریفک کے لیے بند کر دیا۔

ان مظاہرین کا کہنا تھا کہ ‌حکومت نے کئی بار ان کی اپنے گھروں کو واپسی کا اعلان کیا لیکن ان وعدوں پر عمل درآمد نہ ہوسکا جبکہ انہیں کئی مہینوں سے شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ اس مظاہرے میں شریک چیف آف وزیرستان ملک نصر اللہ خان کا کہنا تھا، ’’اب ان لوگوں کو حکومتی اعلانات پر یقین نہیں کیونکہ حکومت نے کئی بار اعلانات کیے لیکن اس نے ان پر عمل درآمد نہیں کیا۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’اب ہم دو ٹوک بات کرنا چاہتے ہیں۔‘‘

Pakistan Internally Displaced People in Waziristan
تصویر: DW/F. Khan

اس احتجاج میں شمالی وزیرستان کے مختلف قبائل کے نمائندہ مشیران نے بھی شرکت کی۔ مظاہرے میں شریک آل فاٹا گرینڈ الائنس کے رہنما ملک خان مرجان کا کہنا تھا، ’’شمالی وزیرستان کے قبائل نے دنیا اور ملک کو دہشت گردی سے بچانے کے لیے قربانی دی۔ اپنا گھر بار چھوڑ دیا۔ بعض مہاجر کیمپوں میں رہے جبکہ زیادہ تر کرائے کے مکانوں میں یا اپنے رشتہ داروں کے ہاں مقیم ہیں۔ لیکن آج جب حکومت اور فوج یہ دعوے کر رہے ہیں کہ نوے فیصد علاقے کو کلیئر کر دیا گیا ہے، تو ہمیں اپنے گھروں کو واپس جانے کی اجازت کیوں نہیں دی جاتی؟‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ واپسی کے لیے شیڈول کا اعلان کر کے چند ہی دنوں بعد واپس لے لیا جاتا ہے۔ ’’ہم اس بات کو قبائل کے ساتھ مذاق سمجھتے ہیں۔‘‘ شمالی وزیرستان کے بےگھر افراد کی واپسی کے لیے کئی مرتبہ تاریخوں کا اعلان کیا گیا ہے جبکہ اب قدرتی آفات سے نمٹنے کے وفاقی ادارے کا کہنا ہے کہ ان مہاجرین کی واپسی کا سلسلہ رواں ماہ کے آخر میں شروع کیا جائے گا۔ حکام کے بقول پہلے مرحلے میں تحصیل میرعلی کے مخلف علاقوں کے اٹھارہ ہزار خاندان واپس جائیں گے، جس کے لیے انتظامات مکمل کر لیے گئے ہیں۔‘‘

پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران قبائلی علاقوں سے بےگھر ہونے والے افراد کی واپسی کے لیے پہلے مرحلے میں ڈیڑھ ارب روپے مختص کیے ہیں۔ اسی طرح جنوبی وزیرستان سے بےگھر ہونے والے افراد کی واپسی کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔ پیر کے روز خیبر پختونخوا کے ضلع ٹانک میں مقیم خاندانوں میں سے ڈھائی سو سے زیادہ خاندان فوج کی نگرانی میں واپس اپنے اپنے علاقوں کی طرف روانہ ہوئے۔ ان خاندانوں کا تعلق جنوبی وزیرستان میں سراروغہ اور سروکئی کی تحصیلوں سے ہے۔ انہیں سفری اخراجات کے لیے دس دس ہزار جبکہ گھریلو اخراجات کے لیے پچیس پچیس ہزار روپے دیے گئے ہیں۔

Pakistan Internally Displaced People in Waziristan
تصویر: DW/F. Khan

سال دو ہزار نو میں فوج نے جنوبی وزیرستان میں دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ اور اس کے حامی طالبان عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن شروع کیا تھا، جس کی وجہ سے نو لاکھ سے زائد افراد کو اپنے گھر بار چھوڑنا پڑے تھے۔ جنوبی وزیرستان سے بےگھر ہونے والے افراد کے لیے حکومت نے کوئی کیمپ نہیں بنایا تھا۔ یہ مہاجرین زیادہ تر اپنے رشتہ داروں کے ہاں یا پھر کرائے کے گھروں میں رہائش پذیر رہے۔ زیادہ تر قبائلی خیبر پختونخوا کے ضلع ٹانک، ڈیرہ اسماعیل خان اور نواحی علاقوں میں رہنے والے افراد کے ہاں مقیم رہے۔

اسی دوران پاکستانی فوج نے خیبر ایجنسی میں مسلح آپریشن ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ بریگیڈیئر زاہد خان کا کہنا تھا، ’’خیبر ایجنسی کی تحصیل با‌ڑہ سے تمام کالعدم تنظیمیں ختم کردی گئی ہیں۔ اس آپریشن کے دوران سو سے زیادہ دہشت گرد مارے گئے جبکہ ساڑھے چار سو کو گرفتار کر لیا گیا۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس آپریشن سے ایک لاکھ سے زیادہ لوگ متاثر ہوئے اور تحصیل باڑہ کے کلیئر ہونے کے بعد وہاں سے نقل مکانی کرنے والوں کی واپسی کا سلسلہ مرحلہ وار شروع کیا جائے گا۔