1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہر قدم پر مشکلات سے عبارت افغان صدارتی انتخابات، ڈی ڈبلیو کا تبصرہ

تبصرہ: فلوریان وائگانڈ / آئی اے8 جولائی 2014

نتائج کے مطابق عالمی بینک کے سابق ماہر اشرف غنی صدارتی انتخابات کے فاتح ہیں لیکن عبداللہ عبداللہ نے بھی اپنی جیت کا اعلان کر دیا ہے۔ موجودہ انتخابی تنازعہ افغانستان کے مستقبل کے لیے دھماکا خیز مواد کی حثیت رکھتا ہے۔

https://p.dw.com/p/1CY69
فلوریان وائگانڈ کی نظر میں موجودہ انتخابی تنازعہ افغانستان کے مستقبل کے لیے دھماکا خیز مواد کی حثیت رکھتا ہےتصویر: DW/P. Henriksen

طالبان کی دھمکیوں کے باوجود افغانوں نے دو مرتبہ اپنی جان کو خطرے میں ڈالتے ہوئے صدارتی انتخابات میں ووٹ ڈالے۔ افغانوں نے جمہوری اور پرامن اقتدار کی منتقلی کی اپنی خواہش عالمی برادری پر واضح کر دی ہے۔ اب آخر کار صورتحال تھوڑی سے واضح ہوئی ہے۔ ابتدائی نتائج کے مطابق اشرف غنی کو 56,44 فیصد ووٹوں کے ساتھ واضح برتری حاصل ہوئی ہے اور پہلی نظر میں یہ نتیجہ مثالی معلوم ہوتا ہے۔ انتخابی نتائج میں متعدد مرتبہ تاخیر کی گئی کیونکہ ان کے بارے میں دھاندلی کے شک و شبہات تھے۔ ہارنے والے امیدوار عبداللہ عبداللہ صدارتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں سب سے آگے تھے اور اب 13 فیصد ووٹوں کی کمی کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہیں، جس سے کئی سوالات جنم لیتے ہیں۔

اس کا ایک سادہ سا جواب یہ ہے: افغان اصولی طور پر ووٹ کسی پروگرام کے حق یا مخالفت میں نہیں بلکہ نسلی ترجیحات کی بنیاد پر دیتے ہیں۔ اشرف غنی افغانستان کی اکثریتی پختون آبادی کی نمائندگی کرتے ہیں۔ خاص طور پر جنوب اور مشرق میں پختون غالب ہیں۔ عبداللہ عبداللہ کے بھی متعدد رشتے دار پختون ہیں لیکن انہیں ملک کے شمال میں تاجکوں کا نمائندہ سمجھا جاتا ہے۔ انتخابات کے پہلے مرحلے میں عبداللہ عبداللہ کی کامیابی کی ایک ممکنہ وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اشرف غنی کے مقابلے میں کئی دیگر پشتون رہنما بھی انتخابی میدان میں تھے، جس سے پشتون ووٹ بٹ گئے۔ جب انتخابات کے دوسرے مرحلے کی باری آئی تو زیادہ تر پشتونوں نے اپنی ہی قوم کے اشرف غنی کے حق جبکہ عبداللہ عبداللہ کی مخالفت میں ووٹ ڈالنے کا فیصلہ کیا۔

موجودہ صورتحال کا ایک دوسرا جواب عبداللہ عبداللہ پیش کرتے ہیں۔ ان کی رائے میں اس مرتبہ بہت بڑے پیمانے پر انتخابی دھاندلی ہوئی۔ کابل میں خود مختار الیکشن کمیشن کے بند دروازوں کے پیچھے اس معاملے پر شدید بحث ہوئی اور اس بات پر کوئی شک نہیں کہ دھاندلی نہیں ہوئی۔ لیکن کیا یہ دھاندلی واقعی اتنے بڑے پیمانے پر تھی کی نتائج ہی بدل گئے ؟ عبداللہ عبداللہ جس بات کا دعویٰ کرتے ہیں، ان کے مخالف اور موجودہ فاتح اشرف غنی اسے اتنی ہی سختی سے مسترد کرتے ہیں۔

موجودہ انتخابی تنازعہ افغانستان کے مستقبل کے لیے دھماکا خیز مواد کی حثیت رکھتا ہے۔ ایک عام ووٹر کو انتخابات میں دھاندلی سے متعلق کبھی بھی کوئی شفاف جواب نہیں ملے گا۔ یہ بات پریشان کن ہے، اس سے تشدد کا راستہ بھی ہموار ہوتا ہے اور بند کمروں میں سازشوں سے متعلق افواہیں بھی جنم لیں گی۔ بدترین صورت میں اس سے وہ طاقتیں بھی فائدہ اٹھا سکتی ہیں، جو جمہوریت کو شیطانی عمل قرار دیتی ہیں اور اسے سرے ہی سے مسترد کرتی ہیں۔

یہ کہ امریکا، یورپی یونین اور اقوام متحدہ خود کو ثالث کے طور پر پیش کر سکتے ہیں اور یہ اچھا اقدام بھی ہو سکتا ہے لیکن اس کے انتخابات پر مزید مہلک اثرات بھی پڑ سکتے ہیں۔ ایک مرتبہ پھر دکھائی دیتا ہے کہ ہندوکش میں ’’گُڈ گورننس‘‘ بیرونی مدد کے بغیر ممکن نہیں۔ آزاد افغان الیکشن کمیشن پر تنقید کی جا رہی ہے کہ وہ انتخابی عمل کو کنٹرول نہیں کر سکا۔ ابھی کمیشن کو دھوکہ دہی کے الزامات کی جانچ پڑتال بھی کرنی ہے اور خود کو بھی بچانا ہے۔ جولائی کے آخر تک حتمی سرکاری نتیجے کا اعلان کیا جانا ہے، دیکھا جائے تو الیکشن کمیشن کی اپنی ساکھ بھی داؤ پر لگی ہوئی ہے۔

تاہم کچھ چیزیں مثبت بھی ہیں۔ مغرب اشرف غنی پر اسی طرح اعتماد قائم کر سکتا ہے، جس طرح عبداللہ عبداللہ کے کامیاب ہونے کی صورت میں ہوتا۔ دونوں کے اہداف اور پروگرام ایک دوسرے سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہیں اور دونوں ہی امریکا کے ساتھ سکیورٹی معاہدہ کرنے کے حق میں ہیں، جس کے تحت نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد بھی امریکی فوجی افغانستان میں تعینات رہ سکیں گے۔ افغانستان کے اب تک کے صدر حامد کرزئی نے اس معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا، اس سلسلے میں مغرب اب ایک قابل اعتماد پارٹنر کی توقع کر سکتا ہے۔