1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گپی مچھلی کی افزائش، ملیریا کی روک تھام کا بہترین ذریعہ

کشور مصطفیٰ30 اپریل 2014

بھارت کے شہر منگلور میں ملیریا کے خلاف ’ گپی مہم‘ شروع کی گئی ہے جس کا مقصد قدرتی ذرائع سے ملیریا کے سد باب کی کوشش کرنا ہے۔

https://p.dw.com/p/1Br9M
تصویر: imago

بھارت میں ہر سال قریب 20 ہزار افراد کی ہلاکت ملیریا کے سبب ہوتی ہے۔ عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کے اندازوں کے مطابق دُنیا بھر میں 3.4 بلین افراد کو ملیریا کی مہلک بیماری سے خطرات لاحق ہیں۔ ہر سال 15 ملین بھارتی باشندے ملیریا کے حملے کا شکار ہوتے ہیں۔ بھارت کے شہر منگلور میں ملیریا کے خلاف ’ گپی مہم‘ شروع کی گئی ہے جس کا مقصد قدرتی ذرائع سے ملیریا کے سد باب کی کوشش کرنا ہے۔

13 سالہ سمپریتھ مونٹیئرو منگلور شہر میں قام سینٹ الوئسیس اسکول میں پڑھتا ہے۔ وہ اپنے پڑوسیوں سے کہتا ہے،"ایک گپی فِش یا مچھلی خرید لیں، وہ آپ کے گھر پائے جانے والے مچھروں کے تمام انڈے کھا لے گی اور اس طرح آپ کو کبھی بھی ملیریا کی بیماری نہیں ہوگی"۔ سمپریتھ نے یہ بات اپنے اسکول میں شروع ہونے والی ایک ’ ملیریا کے خلاف مہم‘ سے سیکھی ہے۔ اس مہم کو ’ گپی موومنٹ‘ کہا جاتا ہے کیونکہ اس میں گپی نامی ایک مچھلی کو ملیریا کا سبب بننے والے مچھروں کی افزائش کے خلاف بطور قدرتی ذریعہ استعمال کیا جاتا ہے۔ اس بارے میں آگاہی اور شعور بیدار کرنے کے لیے شمالی بھارت کی ریاست میگھالیہ میں پانچ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ایک پہاڑی مقام ’شیلونگ‘ میں حال ہی میں ملیریا کی روک تھام کے حوالے سے ایک ورکشاپ کا انعقاد بھی کیا گیا۔ اس میں سرکاری اہلکاروں سمیت صحت کے شعبے سے منسلک افراد نے شرکت کی۔ اس ورکشاپ میں بتایا گیا کہ ’ گپی مچھلی‘ کی افزائش نسل کے ذریعے جراثیم سے پھیلنے والے امراض سے کس طرح بچا جا سکتا ہے۔ اس علاقے کے ایک ہیلتھ آفیسر کارٹر سنگما کے بقول،"ہم سیٹیلائیٹ میپنگ کی مدد سے ملیریا کے خطرات سے دوچار علاقوں کا پتہ لگا رہے ہیں۔ جب یہ عمل مکمل ہو جائے گا تو اِن علاقوں میں گپی مچھلی تقسیم کریں گے اور اس کی افزائش بھی ممکن ہو سکے گی"۔

Malaria in Afghanistan
ہر سال 15 ملین بھارتی باشندے ملیریا کے حملے کا شکار ہوتے ہیںتصویر: Paula Bronstein/Getty Images

کارٹر سنگما کا کہنا ہے کہ حکومت کی طرف سے چلائی جانے والی اس مہم کے تحت 2012 ء کے دوران گپی مچھلی کی پیدائش اور افزائش میں اتنا اضافہ ہوا کہ اس کے سبب مچھروں سے پیدا ہونے والی تمام بیماریوں کی شرح میں 50 فیصد کمی واقع ہوئی۔

ایک قدیم نسخہ

بھارت میں ملیریا کے خلاف گپی مچھلی کا استعمال سب سے پہلے 1908ء میں برطانوی دور میں ہوا تھا۔ اُس وقت ایک برطانوی فوجی آفیسر میجر سلوی بارہا مچھروں کے حملوں کا شکار ہو کر گوناگوں بیماریوں میں مبتلا رہنے کے سبب برطانیہ سے گپی فِش یا مچھلی ہندوستان لے کر آئے اور وہاں اُس کی افزائش کا سلسلہ شروع کروایا۔ انہوں نے منگلور کے کنٹونمنٹ، جہاں وہ متعین تھے، کے ارد گرد پائے جانے والے پانیوں میں گپی فش کی افزائش کروائی۔ اُسی وقت ممبئی کی ریاستی حکومت نے بھی ملیریا کے سدِباب کے لیے گپی مہم شروع کی اور اس کے لیے گپی مچھلیاں امریکی ریاست ٹیکساس سے منگوائی گئیں۔ تاہم ایک صدی سے زیادہ کے عرصے سے گپی مہم کے شروع ہونے کے باوجود بھارت میں ملک گیر سطح پر ملیریا کی روک تھام میں کوئی خاطر خواہ کامیابی دیکھنے میں نہیں آئی ہے کیونکہ حکومت کی طرف سے ملک بھر میں اس مہم کو پھیلانے کا کام انجام نہیں دیا گیا ہے۔ اس کے سبب بھارت میں ہر سال ہزاروں افراد مچھر کا شکار ہوکر موت کے مُنہ میں چلے جاتے ہیں۔

Denguefieber Moskito
ملیریا سے بچاؤ کے لیے مچھر دانی کا استعمال بہت ضروری ہےتصویر: picture-alliance/dpa

ملیریا کی وجوہات

ملیریا کے پھیلاؤ کی بڑی وجوہات، حفظان صحت کی خراب صورتحال، کچرے یا فُضلہ کو مناسب طریقے سے ٹھکانے لگانے کا ناقص انتظام اور ٹھہرا ہوا یا گندا پانی ہوتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق کیڑے مار ادویات کا چھڑکاؤ اور مچھر دانیوں کا استعمال ملیریا سے بچاؤ کے لیے اہم ترین اقدامات تصور کیے جاتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ملیریا کی بیماری سے بچا جا سکتا ہے لیکن اس سلسلے میں بھارت جیسے ممالک میں کافی اقدامات نہیں کیے گئے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ گپی مچھلی کی افزائش سے ملیریا کی روک تھام کا طریقہ سب سے کم خرچ اور موثر ثابت ہوتا ہے۔