1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گُنٹر گرَاس کا انتقال ’ایک عہد کا خاتمہ‘

عدنان اسحاق13 اپریل 2015

نوبل انعام یافتہ جرمن ادیب گُنٹر گراس ایک سرگرم شہری تھے۔ انہیں کبھی منافق کہا گیا توکبھی ان کی اخلاقی دیانت کو سراہا گیا۔ یہ عظیم مصنف تیرہ اپریل کو87 برس کی عمر میں انتقال کر گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1F7D2
تصویر: picture-alliance/dpa

گنٹر گراس کی زندگی نشیب و فراز کا شکار رہی ہے۔ اس کہانی کی ابتداء سولہ اکتوبر 1927ء میں گڈانسک نامی شہر سے ہوئی۔ گنٹر گراس نے بظاہر ایک غریب گھرانے میں آنکھ کھولی۔ اُن کے والدین کی گڈانسک میں کریانہ کی ایک دکان تھی۔ یہ شہر آج کل پولینڈ میں واقع ہے۔ اس علاقے میں غربت تھی، ان کے گھر میں جگہ بھی تنگ تھی اور اطراف کی آبادی کیتھولک مسیحی تھی۔ گنٹر گراس کی سوانح نگار مشائیل یُرگس کے مطابق ’’ اُن کا بچین ایک ایسے دور میں گزرا، جہاں ایک جانب مذہب تھا اور دوسری جانب ہٹلر کے عروج کا زمانہ‘‘۔

سترہ سال کی عمر میں گُنٹر گراس نے دوسری عالمی جنگ کی تباہی کو قریب سے دیکھا۔ وہ اس جنگ میں نوجوان معاون اور پھر نازیوں کی ایلیٹ فورس کے سپاہی کے طور پر شریک رہے۔ تاہم اس بارے میں انہوں نے کئی دہائیوں بعد انکشافات کیے، جس کے بعد ایک نیا تنازعہ کھڑا ہو گیا تھا۔ بعد میں کہا یہ توجیہ پیش کی گئی کہ جنگ کے زمانے میں جان بچانے کے لیے ایسا کرنا پڑا۔

Buchcover Biografie Günter Grass EINSCHRÄNKUNG
تصویر: Oskar

ایک کامیاب ادب کی شروعات

1952ء میں جب وفاقی جمہوریہ جرمنی کو قائم ہوئے ابھی کچھ سال ہی گزرے تھے اُس وقت گنٹر گراس بھی نوجوان تھے۔ اُس دور میں انہوں نے فن کے شعبے پر توجہ دیتے ہوئے مجسمہ سازی اور گرافکس کی تعلیم حاصل کرنا شروع کی۔ وہ جاز میوزک کے ایک گروپ میں بھی شامل رہے۔ اس کے بعد 1956ء میں وہ پیرس منتقل ہو گئے تھے۔ وہاں وہ اپنی پہلی اہلیہ کے ساتھ ایک عام سی زندگی گزارتے رہے۔ تاہم یہیں سے ایک بڑے ادیب کا کیریئر بھی شروع ہوا۔ 1959ء میں اسی شہر میں ’دی ٹِن ڈرم‘ کے نام سے اُن کا پہلا ناول منظر عام پر آیا، جسے بعد ازاں عالمی سطح پر شہرت بھی حاصل ہوئی۔ 1979ء میں اس پر فلم بھی بنی اور کئی زبانوں میں اس کا ترجمہ بھی کیا گیا۔ دی ٹِن ڈرم کے شائع ہونے کے تقریباً چالیس سال بعد یعنی 1999ء میں گنٹر گراس کے ادب کے نوبل انعام سے نوازا گیا۔

اچھا لکھا، بہت لکھا

گنٹر گراس کی تخلیقات کی فہرست بہت طویل ہے۔ 1961ء میں ’کیٹ اینڈ ماؤس‘ اور 1963ء میں ’ڈاگز ایئرز‘ کے ساتھ گراس نے اپنی تین حصوں پر مشتمل ’گڈانسک ٹرایالوجی‘ مکمل کر لی، جس میں جرمن قوم کے اجتماعی احساسِ جرم اور ہٹلر دور کا احاطہ کیا گیا تھا۔ گراس سیاست کے شعبے میں بھی سرگرمِ عمل رہے اور جرمنی اور پولینڈ کے درمیان دوستی کے لیے کوشاں رہے۔ ساٹھ کے عشرے میں جرمن سوشل ڈیمرکریٹک پارٹی ایس پی ڈی کی رکنیت حاصل کیے بغیر وہ اس جماعت کی انتخابی مہم میں سرگرم رہے۔ اگرچہ وہ محض 1982ء تا 1992ء اس جماعت سے وابستہ رہے لیکن اس کی حمایت وہ عمر بھر کرتے رہے۔ ان کے زیادہ تر شاہکاروں میں سیاسی اور سماجی موضوعات پر روشنی ڈالی گئی۔

اخلاقیات اور سیاست

گنٹر گراس کئی صلاحیتوں کے مالک تھے۔ وہ ادیب تھے، انہوں نے گانے بھی تحریر کیے، مجسمہ ساز تھے اور اپنی تصانیف کے سرورق بھی خود ہی بناتے تھے۔ انہوں نے 1969ء میں سابق جرمن چانسلر ولی برانڈ کی انتخابی مہم میں بھی حصہ لیا تھا۔ ولی برانڈ سوشل ڈیموکریٹ چانسلر تھے۔ تاہم اس دوران وہ بطور ادیب بھی کام کرتے رہے۔ 2006ء میں اُن کی آپ بیتی ’پیلنگ دی اونین‘ نے جرمنی میں ایک نئی نزاعی بحث چھیڑ دی۔ اس کتاب میں اُنہوں نے پہلی مرتبہ یہ اعتراف کیا تھا کہ وہ ہٹلر کے ’وافن ایس ایس‘ یونٹ میں شامل رہے تھے۔ تب ناقدین نے اُن کی اخلاقی دیانت اور اعتبار پر سوالیہ نشان لگا دیے۔ ماضی میں نازیوں کا ساتھ دینے کی وجہ سے انہیں منافق بھی کہا گیا۔

ایک اشتعال انگیز نظم

2007ء میں گراس کی 80 ویں سالگرہ پر اُنہیں ایک بار پھر ایک عظیم ادیب کے طور پر خراجِ تحسین پیش کیا گیا۔ اپریل 2012ء میں اُن کی ایک نظم ’جو کہا جانا چاہیے‘ میں اسرائیل کو ہدفِ تنقید بنایا گیا تھا، جیسے ہی یہ نظم شائع ہوئی، ہر طرف سے گراس پر تنقید شروع ہو گئی۔ اس نظم کی ادبی ساخت کو بھی نشانہ بنایا گیا اور گراس کو سیاسی معاملات سے ناواقفیت اور سامی دشمنی کا بھی الزام دیا گیا۔

نوبل انعام یافتہ گنٹر گراس پیر تیرہ اپریل کو ستاسی برس کی عمر میں شمالی جرمن شہر لیوبیک میں انتقال کر گئے۔