1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گرِم برادران کی دیومالائی کہانیوں کو دو سو سال ہو گئے

20 دسمبر 2012

’ایک دفعہ کا ذکر ہے‘، یہ بچوں کی کسی بھی کہانی کا وہ آغاز ہے، جسے بچے دنیا بھر میں ہر جگہ پسند کرتے ہیں۔عالمی سطح پر مشہور ایسی ہی کہانیاں جرمنی کے گرِم برادران کی بھی ہیں، جنہیں بین الاقوامی سطح پر بہت پسند کیا جاتا ہے.

https://p.dw.com/p/176F6
تصویر: picture-alliance/dpa

’سنو وائٹ‘، ’سنڈریلا‘ اور ’ہانزل اینڈ گریٹل‘ یاکوب اور ولہیلم گرِم نامی دو بھائیوں کی لکھی گئی دیومالائی کہانیوں میں سے ایسی ہیں جن سے دنیا کے اکثر انسان اچھی طرح واقف ہیں۔ گرِم برادران کی لکھی گئی کتاب Children's and Household Tales پہلی مرتبہ 20 دسمبر 1812ء کو شائع ہوئی تھی۔ اس کتاب میں بچوں کی بہت سی کہانیاں شامل ہیں۔ گزشتہ دو سو سال کے دوران یہ کہانیاں دنیا کی 170 سے زائد زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہیں اور عالمی سطح پر بچوں کی بہترین کہانیاں قرار دی جاتی ہیں۔

Gebrüder Grimm Jakob Grimm Wilhelm Grimm Märchen Germanist Schriftsteller
دونوں بھائیوں نے دیومالائی کہانیاں جمع کرنے کا کام 1806ء میں شروع کیا تھاتصویر: picture alliance / akg-images

اس کتاب کا دو صدیاں پرانا پہلا ایڈیشن آج بھی جرمنی کے شہر کاسل کے گرِم برادرز میوزیم میں رکھا ہوا ہے۔ سن 2005 میں اقوام متحدہ کے سائنسی، تعلیمی اور ثقافتی ادارے یونیسکو نے اسے اپنی ’عالمی دستاویزی میراث‘ کی فہرست میں شامل کر لیا تھا۔

جرمن شہر کاسل کی یونیورسٹی کے پروفیسر ہولگر ایرہارڈ کہتے ہیں، ’پریوں کی کہانیاں قدیم ترین انسانی کہانیوں کے سوا کچھ بھی نہیں اور یاکوب اور ولہیلم گرِم نے ایسی ہر شے کو ایک جگہ پر جمع کرنے کی کوشش کی، جس کا تعلق قدیم جرمن معاشرت سے بنتا تھا‘۔

Gebrüder Grimm Jakob Grimm Wilhelm Grimm Märchen Germanist Schriftsteller
گرِم برادران کی کہانیوں میں سے اکثر میں ہمیشہ ایک گہرا پیغام ہوتا ہےتصویر: picture alliance / akg-images

پروفیسر ہولگر ایرہارڈ گرِم برادران اور ان کی تخلیقات سے متعلقہ علوم کے ماہر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اپنی اسی خصوصیت کی وجہ سے یہ دیومالائی کہانیاں ماضی میں ہمارے دور کی ابتدا تک جاتی ہیں۔ ان کے مطابق، ’گرِم برادران کی کہانیوں میں مثال کے طور پر ان قدیم بھارتی دیومالائی کہانیوں کے اثرات بھی شامل ہیں، جو پہلی صدی عیسوی کے دور کی کہانیاں ہیں‘۔

گرِم برادران کی کہانیوں میں سے اکثر میں ہمیشہ ایک گہرا پیغام ہوتا ہے۔ پروفیسر ایرہارڈ کے بقول انسانوں نے شاید اپنے بچوں کو تعلیمی مقاصد کے لیے پریوں کی کہانیاں ہمیشہ ہی سنائی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کہانیوں میں ہمیشہ ایک سبق ہوتا ہے اور اسی لیے یہ صرف بچوں کے لیے ہی نہیں ہوتیں۔ ’’بالغ انسانوں کو بھی اکثر ان کہانیوں سے بہت سے قدرتی عوامل کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے، مثال کے طور پر بجلی کا گرجنا۔ یعنی یہ کہ آخر کوئی نہ کوئی تو اس کی وجہ بنا ہو گا؟‘

Cinderella, Aschenputtel, Zeichentrickfilm
سنڈریلا کی کہانی پر کئی فلمیں بھی بن چکی ہیںتصویر: AP

یاکوب گرِم 1785ء میں پیدا ہوئے تھے اور ان کا انتقال 1863ء میں ہوا تھا۔ ان کے چھوٹے بھائی ولہیلم گرِم یاکوب سے ایک سال بعد 1786ء میں پیدا ہوئے تھے اور ان کا انتقال 1859ء میں اپنے بڑے بھائی سے چار سال پہلے ہوا تھا۔ ان دونوں بھائیوں نے دیومالائی کہانیاں جمع کرنے کا کام 1806ء میں شروع کیا تھا۔ اس مقصد کے لیے ان دونوں بھائیوں نے بہت زیادہ سفر نہیں کیا تھا بلکہ انہوں نے ان لوگوں تک زیادہ رسائی حاصل کی تھی جن کے بارے میں انہیں علم تھا کہ وہ انہیں ایسی کہانیاں سنا سکتے تھے۔

شروع میں گرِم برادران کی یہ مدد کاسل میں رہنے والے دو خاندانوں نے کی اور بعد میں یہی کام ایک مقامی درزی کی بیوی نے کیا جس کا نام ڈوروتھیا فیہمان تھا۔ اسی ڈوروتھیا فیہمان کے بارے میں پروفیسر ہولگر ایرہارڈ نے ابھی حال ہی میں اپنی ایک نئی کتاب بھی لکھی ہے۔

Cinderella-Village.jpg
سنڈریلا کا تخیلاتی گاؤں

پروفیسر ایرہارڈ کہتے ہیں کہ گرِم برادران نے ان کہانیوں کو اس طرح بدلا کہ ان میں سے ان کی پریوں کی کہانیوں نے جنم لیا۔ پھر یہ کہانیاں اس دور کے جرمن معاشرے سے نکل کر پوری دنیا میں پھیل گئیں۔

ان کہانیوں کا مرکزی کردار اکثر ایک ایسی چھوٹی سی لیکن بہت اچھی بچی ہوتی ہے، جس سے پہلے تو کوئی بہت بڑی اور شدید غلطی ہو جاتی ہے لیکن جو کہانی کے آخر میں ہمیشہ اپنے لازمی طور پر خوش کر دینے والے مقام تک پہنچ جاتی ہے۔

گرِم برادران کے بارے میں جرمنی میں اگلے پورے سال کے دوران بہت سی تقریبات منعقد کی جائیں گی۔ 20 ستمبر 2013ء کے روز یاکوب گرِم کو انتقال کیے ٹھیک 150 سال ہو جائیں گے۔

(ij /mm (dpa