1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیوں اب عید، عید جیسی نہیں لگتی

9 اپریل 2024

عید کو عید بنانے میں بنیادی کردار در اصل میل جول کا ہے۔ لیکن فی زمانہ یہ ملن ساری کا معاملہ تقریباﹰ ختم ہو کر رہ گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4eaJ6
DW Urdu Bloger Swera Khan
تصویر: Privat

کیا کبھی عید کی صبح آپ نے یہ سوچا ہے کہ اِس دن میں ایسی کیا بات ہے جو گذشتہ دن سے مختلف ہے؟ ایسے ہی سورج تو کل بھی نکلا تھا اور یوں اجالا بھی ہوا تھا۔ موسم بھی کم و بیش ایسا ہی تھا۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ آج زیادہ روشنی محسوس ہوتی ہے۔ ہوا کا لطف کچھ اور ہی ہے اور ہمارے دل کی کیفیت بھی وہ نہیں ہے، جو کہ گزشتہ روز تھی۔ دل میں ایک الگ طرح کا احساس ہوتا ہے، جو ہر سو پھیلا ہوا محسوس ہو رہا ہوتا ہے۔

آخر وہ احساس کیا ہے؟

وہ احساس یقیناً عید کا تو ہے، لیکن عید کا یہ احساس آخر ہے کیا؟ عید کا یہ احساس در اصل میل جول سے ہے۔ ملنے جلنے والوں کی خبر گیری سے ہے۔ لیکن فی زمانہ یہ ملن ساری کا معاملہ نسبتاﹰکم ہو کر رہ گیا ہے۔ بہت سے گھرانوں میں تو کہنا چاہیے کہ بالکل ہی ختم ہو گیا ہے۔ اس لیے ان کے ہاں عید کی نماز کے بعد نیند پوری کرنے اور آرام کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوتا ہے جو کہ آرام کر کر کے اکتانے پر منتج ہوتا ہے۔

کہاں پہلے نمازِ عید کے بعد رشتے داروں کے ہاں عید ملنے جانے کا ایک سلسلہ ہوتا تھا، ایک گھر سے دوسرے، دوسرے سے تیسرے اور چوتھے ایسے ہی سارا دن بلکہ پوری عید گزر جاتی تھی۔ دل خوشیوں سے ایسے بھرے ہوتے تھے کہ طبیعت سیر ہو جاتی تھی۔ ہم زندگی کی تلخیوں اور دشواریوں کو یکسر بھولے رہتے اور جب یہ کڑوی باتیں اور دشواریاں یاد بھی آتیں تو عید کی مٹھاس اتنی ہوتی تھی کہ ہم ان مشکلات سے بہت آسانی سے نمٹ لیتے تھے۔

زمانے کے تغیر نے عید پر جہاں ملنے جلنے کی یہ خوب صورت رِیت ختم کی ہے، وہیں ہمسائیوں کا خیال بھی باقی نہیں رہا۔ اب بھلا کون کسی پڑوس کے گھر میٹھا چکھنے کو بھیجتا ہے۔ پہلے تو ہمسائے بھی کھلے دل سے دیوار پر رہنے والوں کے لیے کسی اپنے سے کم نہ ہوتے تھے۔ جب کہ اب تو تہوار پر بھی رشتے داروں کی دعوت کا انتظار کیا جاتا ہے۔ کہاں ہم پہلے 'بلا وجہ' ہی رشتے داروں سے ملنے چلے جایا کرتے تھے۔ اب تو یہ سارے رواج نام نہاد مصروفیات کے نام پر قصہ پارینہ بن گئے ہیں۔ وہ مصروفیات ہوتی بھی کیا ہیں، گھروں میں سوتے رہنا؟؟ پھر لوگ کہتے ہیں کہ عید کا جوڑا لینے کا کیا فائدہ جب عید کے تینوں دن سو کر ہی گزارنے ہیں۔

کہاں وہ دن تھے کہ عید کے لیے چار، چار دن بھی کم معلوم ہوتے تھے اور آج ہر شخص دوسرے دن ہی سے اکتا جاتا ہے اور چاہتا ہے کہ کوئی مصروفیت مل جائے۔ یعنی ہماری مردم بیزاری کا اندازہ لگائیے کہ ہمیں خوشی کے تہوار میں بھی خوشی میسر نہیں ہو رہی۔ شاید یہی ہمارے بہت سے نفسیاتی اور مزاج کے عوارض کی وجہ بھی ہے، کیوں کہ انسان کا مزاج مجلسی ہے۔ ایک انسان ہی دوسرے انسان کی دوا ہے۔ زندگی کی جد و جہد میں اسے اپنے جیسے انسانوں کے ساتھ، ان سے اپنے دکھ سکھ کہنے اور ساتھ وقت گزارنے کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ضرورت کسی بھی طرح بنیادی غذائی اور جسمانی ضرورت کی طرح انسانی ذہن کے لیے نا گزیر ہے۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے یہ تہوار زندگی میں رنگ بھرنے کے بجائے بس چند چھٹیوں کے نام پر گھروں کے اندر بند ہونے تک محدود ہو گئے ہیں۔ جس سے ہم کچھ ہی وقت میں اکتا بھی جاتے ہیں۔

آج اگر ہم اپنی زندگی میں بے سکونی کی شکایت کرتے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ اپنے تہواروں کو لوگوں کے ساتھ گزارنا شروع کریں۔ اپنے ملنے جلنے والوں، دوستوں اور رشتہ داروں سے غیر ضروری تکلفات کا خاتمہ کریں۔ ضروری نہیں ہے کہ بہت زیادہ اخراجات کا سہارا لیں بلکہ یہ میل جول بہت سادہ طریقے سے بھی ممکن ہے۔ یوں ہی بغیر کسی بلاوے اور دعوت کے آپ کسی کے ہاں چلے جائیں اور عید مل کر لوٹ آئیں۔ انھیں اپنے ہاں آنے کی دعوت دیں۔ آپ دیکھیں گے کہ اس طرح ملن ساری کا ایک نیا ڈھب قائم ہو گا اور آپ دل کی خوشی کو محسوس کرنے لگیں گے۔ بس سچے دل سے ایک بار آزمائش شرط ہے۔ آپ خود قائل ہو جائیں گے کہ واقعی یہ عید، ایک عید کی طرح ہی گزری ہے اور تا دیر اپنی چاشنی ہمارے دلوں میں گھول کر گئی ہے۔