1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کيمرون افغانستان میں، غنی کو حمايت کی يقين دہانی

عاصم سليم3 اکتوبر 2014

برطانوی وزير اعظم ڈيوڈ کيمرون آج اپنے ايک غير اعلانيہ دورے پر افغانستان پہنچے جہاں انہوں نے نئے ملکی صدر اشرف غنی سے ملاقات کی۔ دونوں رہنماؤں نے علاقائی سلامتی، افغانستان کے مستقبل اور ديگر اہم امور پر تبادلہ خيال کيا۔

https://p.dw.com/p/1DPUg
تصویر: Reuters/M. Hossaini

وزير اعظم ڈيوڈ کيمرون نے آج صبح دارالحکومت کابل پہنچنے کے بعد افغان صدر اشرف غنی احمد زئی سے ملاقات کی۔ انہوں نے اس ملاقات ميں غنی کو افغانستان کے ليے برطانیہ کی حمايت جاری رکھنے کی يقين دہانی کرائی۔ بعد ازاں غنی کے ہمراہ ايک پريس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کيمرون نے کہا، ’’ہم سب کا مقصد ایک ہے، اور وہ ہے افغانستان کو زيادہ محفوظ اور مستحکم بنانا۔‘‘ برطانوی وزیر اعظم کا مزيد کہنا تھا کہ وہ ايک ايسا افغانستان چاہتے ہيں، جو نہ دہشت گردوں کے ليے پناہ گاہ بنا رہے اور نہ ہی برطانيہ يا خود اپنی سلامتی کے ليے خطرہ ہو۔

افغان صدر اشرف غنی نے اس موقع پر صحافیوں کو بتایا کہ افغانستان ميں خدمات انجام دينے والے نيٹو کے فوجيوں نے دنيا کو زیادہ محفوظ بنانے ميں مدد دی ہے۔ غنی نے افغانستان ميں طالبان عسکريت پسندوں کے خلاف جنگ کے دوران مارے جانے والے نيٹو کے فوجيوں کے اہل خانہ سے اظہار ہمدردی بھی کيا۔ انہوں نے کہا، ’’ميں ہر اس فوجی يا شہری کا بھی شکريہ ادا کرتا ہوں، جو افغانستان ميں زخمی ہوا۔‘‘ نئے افغان صدر نے اپنے ملک ميں خدمات انجام دينے والے اور قربانياں دينے والے نيٹو کے فوجيوں کا بھی شکريہ ادا کيا۔

پير کے روز افغان صدر کے عہدے سے سبکدوش ہونے والے حامد کرزئی
پير کے روز افغان صدر کے عہدے سے سبکدوش ہونے والے حامد کرزئیتصویر: RAVEENDRAN/AFP/Getty Images

يہ امر اہم ہے کہ رواں ہفتے پير کے روز افغان صدر کے عہدے سے سبکدوش ہونے والے حامد کرزئی نے گزشتہ کچھ عرصے سے يہ موقف اختيار کر رکھا تھا کہ افغانستان ميں 2001ء سے جاری نيٹو کا مشن اس ملک ميں امن و سلامتی قائم نہيں کر سکا اور اس سے افغان عوام کو خاصے نقصانات اٹھانا پڑے ہيں۔ کرزئی کی طرف سے ايسے بيانات اور امريکا کے ساتھ دوطرفہ سکيورٹی معاہدے کو حتمی شکل دينے ميں تاخير نے کابل اور اس کے مغربی اتحاديوں کے مابین فاصلے پیدا کر ديے تھے۔

تاہم اسی ہفتے صدارتی منصب پر فائز ہونے والے اشرف غنی نے امريکا، نيٹو اور کابل کے ديگر مغربی اتحاديوں کے ساتھ نئے سرے سے روابط کا آغاز کیا ہے۔ غنی کے عہدہ سنبھالنے کے فوراﹰ بعد کابل میں حکام نے منگل کو عرصے سے تعطل کے شکار امریکا کے ساتھ دوطرفہ سکيورٹی معاہدے پر دستخط کر ديے تھے۔ اس معاہدے کے تحت رواں برس افغانستان سے غير ملکی افواج کے انخلاء کے بعد بھی قريب بارہ سے تيرہ ہزار فوجی وہاں تعينات رہ سکيں گے۔ ان ميں سے نو ہزار آٹھ سو فوجی امريکی ہوں گے جبکہ قريب تين ہزار فوجی نيٹو کے رکن ديگر ممالک سے ہوں گے۔ يہ فوجی بنيادی طور پر افغان سکيورٹی فورسز کی تربيت اور معاونت کا کام کريں گے۔

گزشتہ دو برسوں ميں جيسے جيسے نيٹو نے اپنے کردار ميں کمی لاتے ہوئے افغان سکيورٹی دستوں کو اضافی ذمہ دارياں سونپی ہيں، ويسے ہی افغان فوجيوں کی ہلاکتوں ميں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ حال ہی ميں آئی سيف کے سربراہ کا عہدہ سنبھالنے والے جنرل جان کيمبل نے گزشتہ روز بتايا کہ سال رواں کے دوران اب تک ہلاک يا زخمی ہونے والے افغان فوجيوں اور پوليس اہلکاروں کی تعداد سات ہزار اور نو ہزار کے درميان بنتی ہے۔ ان حالات ميں جب افغان طالبان نئے خونریز حملے کر رہے ہيں، نیٹو کی طرف سے آئندہ بھی افغان حکام کی مدد ناگزير ہو چکی ہے۔