1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کم کام کرنے والے چینی کارکن: پینے کو پیشاب، کھانے کو کاکروچ

8 نومبر 2018

چینی میں مکانات کی تعمیر و تزئین کرنے والی ایک کمپنی کے ’کم کام کرنے والے‘ کارکنوں کو ان کی سرزنش کے لیے جبراﹰ پیشاب پلایا اور کاکروچ کھلائے جاتے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی چمڑے کی بیلٹوں سے پٹائی بھی کی جاتی رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/37tIb
تصویر: picture-alliance/Robert Kalb/APA/picturedesk.com

چینی دارالحکومت بیجنگ سے جمعرات آٹھ نومبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق چین کے سرکاری ذرائع ابلاغ نے ملکی سوشل میڈیا پر جاری کردہ تصویروں اور ویڈیو فوٹیج کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ جو چینی کارکن اپنے افسران کی طرف سے دیے گئے پیشہ ورانہ اہداف کے حصول میں ناکام رہتے تھے، انہیں غیر قانونی طور پر لیکن طرح طرح کی سزائیں دی جاتی تھیں۔

Wanzen
تصویر: picture-alliance/OKAPIA/Dr. Gilbert S. Grant

ان سزاؤں میں یہ بھی شامل تھا کہ ایسے کارکنوں کی یا تو تنخواہیں ایک ماہ کے لیے روک دی جاتی تھیں، یا ان کے سر منڈوا دیے جاتے تھے، یا پھر انہیں کسی بیت الخلا میں ٹائلٹ سیٹ کے اندر موجود پانی پینے پر مجبور کیا جاتا تھا۔

سرکاری میڈیا کے مطابق یہ سب کچھ جنوب مغربی صوبے گُوئی ژُو کی ایک تعمیراتی کمپنی کے ملازمین کے ساتھ کیا جاتا رہا۔ اس غیر انسانی برتاؤ کی اس کمپنی کے کئی سابقہ ملازمین نے بھی تصدیق کر دی ہے اور یہ بھی ثابت ہو گیا ہے کہ اس کمپنی کے انتظامی عملے کی موجودگی میں کئی کارکنوں کے ساتھ ایسا سلوک سرعام روا رکھا گیا۔

روئٹرز کے مطابق یہ بھی بار بار دیکھنے میں آیا تھا کہ کام پر جانے والے جو کارکن چمڑے کے جوتے یا اپنا مناسب پیشہ ورانہ لباس پہننا بھول گئے تھے، انہیں 50 یوآن جرمانہ بھی کیا گیا۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس کمپنی کی طرف سے ’توقع سے کم کام کرنے والے‘ کارکنوں کے خلاف ایسی سزاؤں کا طریقہ کار اس سال کے آغاز سے متعارف کرایا گیا تھا۔

دریں اثنا چین کے عوامی تحفظ کے ملکی دفتر (پبلک سکیورٹی بیورو) کی مقامی شاخ نے بھی تصدیق کر دی ہے کہ ایسی ذلت آمیز سزاؤں کے باوجود متاثرہ کارکنوں کی اکثریت نے اپنا روزگار نہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا کیونکہ وہ اس امر کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی کہ اس کو پاس کوئی روزگار نہ ہو۔

پبلک سکیورٹی بیورو کے مطابق اس طرح کے غیر انسانی رویوں کے باعث اب تک اس چینی کمپی کے تین اعلیٰ انتظامی اہلکاروں کو پانچ سے لے کر دس روز تک کی قید کی سزائیں بھی سنائی جا چکی ہیں۔

چین میں، جہاں قومی سطح پر اقتصادی ترقی اور مجموعی سالانہ پیداوار میں اضافے کی شرح دنیا کے بہت سے دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت اونچی ہے، عام کارکنوں کے لیے روزگار کے حالات کو انسانی حقوق کے کئی ادارے ’بہت سخت اور معاف کر دینے کی سوچ سے عاری‘ قرار دیتے ہیں۔

اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ چینی مزدوروں کی بہت بڑی تعداد کے روزانہ اوقات کار بہت طویل ہوتے ہیں، انہیں تنخواہیں بھی بہت کم ملتی ہیں اور وہ اکثر درجنوں کی تعداد میں چھوٹے چھوٹے کوارٹروں میں رہتے ہیں۔

ریاستی میڈیا کے مطابق صوبے گُوئی ژُو کی جس کمپنی کے ملازمین کو یہ شرمناک سزائیں دی گئیں، ان کی اکثریت نے اپنی اس تذلیل کے باوجود ان سزاؤں پر ’بہت زیادہ ناخوشی کا اظہار کرنے کے بجائے اسے اپنی قسمت سمجھ کر تسلیم کر لیا تھا‘۔

م م / ش ح / روئٹرز

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں