1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کسمپرسی کی حالت میں چھوڑ دیے گئے، روہنگیا مسلمان

31 دسمبر 2018

سات لاکھ سے زائد روہنگیا باشندے اس وقت بنگلہ دیش میں مختلف مقامات پر موجود مہاجربستیوں میں مشکل حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔ رواں برس بھی یہ روہنگیا مسلمان اپنے ملک واپس نہیں جا سکے۔

https://p.dw.com/p/3Aodu
Migration - Rohingya-Flüchtlinge an der Grenze zu Myanmar
تصویر: Getty Images/AFP/Y. Aung Thu

اگست سن 2017 میں میانمار کی ریاست راکھین میں روہنگیا کے خلاف شروع کیے جانے والے فوجی آپریشن میں مسلمان اقلیت روہنگیا کے متعدد دیہات تباہ کر دیے گئے تھے۔ اس آپریشن کے دوران سینکڑوں روہنگیا مسلمان میانمار کی فوج کے ہاتھوں ہلاک بھی ہوئے تھے۔

اقوام متحدہ کے مہاجرین کے لیے امدادی ادارے یو این ایچ سی آر کے اعداد وشمار کے مطابق اس کریک ڈاون کے نتیجے میں قریب سات لاکھ روہنگیا افراد سرحد عبور کر کے بنگلہ دیش میں پناہ گزین ہوئے۔ اس سے قبل بھی تین لاکھ کے لگ بھگ روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش پہنچ چکے تھے بلکہ ان میں سے بعض تو کئی عشروں سے یہاں پناہ لیے ہوئے تھے۔

اقوام متحدہ نے میانمار آرمی کے اس آپریشن کو روہنگیا کی ’نسلی تطہیر‘ کا نام دیا تھا تاہم ینگون حکومت ان الزامات سے انکار کرتی ہے۔ یہ لاکھوں افراد اب بھی بنگلہ دیش کے مخلف مقامات پر قائم کچی بستیوں اور مہاجر کیمپوں میں انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔

بنگلہ دیش میں پناہ گزین روہنگیا فرد جو عربی کے استاد بھی ہیں، نے ڈھاکا حکومت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ انہیں امید ہے کہ وہ جلد اپنے گھر واپس لوٹ سکیں گے۔

Bangladesch - Rohingya Zurückführung
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Yasin

کوٹوپالونگ مہاجر کیمپ میں ہر روز گیارہ ہزار مہاجرین کی دیکھ بھال کرنے والی امدادی تنظیم ’کیئر انٹرنیشنل‘ کی جینیفر بوس نے ڈوئچے ویلے کو بتایا،’’ صورت حال اتنی خراب نہیں جتنی کہ سن 2018 میں تھی تاہم اب بھی خاصی مشکلات ہیں۔ پناہ گزینوں کو اب بھی بہت سی بنیادی سہولتوں کی کمی ہے اور امداد کے حوالے سے یہاں ہمہ وقت ایک ہنگامی صورت حال رہتی ہے۔‘‘

روہنگیا مسلمانوں نے عشروں قبل بنگلہ دیش نقل مکانی شروع کی تھی۔ جس کے نتیجے میں بنگلہ دیش کے علاقے کوکس بازار میں روہنگیا مہاجرین کا کوٹو پالونگ مہاجر کیمپ وجود میں آیا۔ سن 2017 میں سات لاکھ روہنگیا کی یہاں آمد کے بعد اب یہ کیمپ بذات خود ایک چھوٹا سا شہر بن چکا ہے۔ قریب جرمن شہر کلون کے رقبے جتنا لیکن کسی انتظامی ڈھانچے کے بغیر۔

’دی اینیمی وِد ان‘ نامی کتاب کے مصنف فرانسس واڈے نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے بتایا،’’ پہلی بات تو یہ ہے کہ روہنگیا بغیر ریاست کے افراد ہیں لہذا کوئی بھی ملک خود کو ان کی فلاح و بہبود کی ذمہ داری اٹھانے کا ذمہ محسوس نہیں کرتا۔ دوسرے یہ کہ یہ افراد ایک ایسے ملک میں پناہ گزین ہوئے ہیں جو پہلے ہی سے غربت اور سہولیات کی کمی کا شکار ہے۔‘‘

روہنگیا باشندے محمد طاہر کا بنگلہ دیش میں تا دیر قیام کا ارداہ ہے۔ اُن کے بقول،’’ جب ہمیں انصاف ملے گا تب ہم میانمار لوٹ جائیں گے۔‘‘

واڈے کے مطابق روہنگیا مہاجرین کے پاس فی الحال بنگلہ دیش میں رہنے کے علاوہ اور کوئی متبادل نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ وہ دن کب آئے گا جب اس مسئلے کا کوئی بہتر حل نکل سکے گا۔

دوسری جانب بنگلہ دیش میں مقیم روہنگیا مہاجرین بھی میانمار واپس نہیں جانا چاہتے۔ ابھی حال ہی میں جب ڈیڑھ سو روہنگیا کو واپس میانمار بھیجے جانا طے پایا تھا، تو سینکڑوں افراد نے اس کے خلاف مظاہرہ کیا تھا۔

ص ح / ع ب / نیوز ایجنسی